اُردو ادبانٹرویو

نوین روما کا اردو ورثہ کے لیے خصوصی انٹرویو/ انٹرویور: سیدہ عطرت بتول نقوی

تعارف

نوین روما اردو ادب، تدریس، نشریات اور فنونِ لطیفہ کی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج فار ویمن شاد باغ میں تدریسی سفر کا آغاز کیا، پنجاب یونیورسٹی سے فلم و ٹی وی میں پوسٹ گریجویشن کیا، اور اے ٹی وی پر پروڈیوسر کے طور پر کام کیا۔ ریڈیو پاکستان ایف ایم 101 پر وہ پانچ سال RJ رہیں۔ وہ الحمرا آرٹس کونسل کی وابستہ رکن ہیں اور الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں "ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ” کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی تخلیقی کاوش "رقصِ آب” کے عنوان سے افسانوی مجموعہ ہے۔ وہ کالم نگار، ریزن آرٹ آرٹسٹ، ڈائریکٹر اور ادب کی مختلف اصناف میں سرگرم ایک متحرک نام ہیں۔

انٹرویو

اسلام علیکم، روما صاحبہ کیسی ہیں؟
اللہ کا کرم ہے، خیریت سے ہوں۔

ہمیں کچھ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے، والدین، بچپن ؟
– لاہور میں پیدا ہوئی والدہ پنجابی ہیں اور والد صاحب کا تعلق کشمیری خاندان سے تھا والد صاحب کی وفات میرے بچپن میں ہو گئی میں اگر ان کو یاد کروں تو ان کے نقوش میرے ذہن میں بالکل بھی نہیں آتے ،لاہور میں پلی بڑھی ہوں۔

آپ کے تدریسی سفر کا آغاز شاد باغ کالج سے ہوا، اس ابتدائی مرحلے نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات ڈالے؟
میں نے بی اے گورنمنٹ کالج فار وومن شاد باغ سے کیا اور اسی کالج میں جب تدریس کے لیے گئی تو اتنا خوبصورت تجربہ رہا کہ جہاں میں طالب علمی کے زمانے میں جاتی تھی وہاں میں استاد کی حیثیت سے گئی لیکن زمانہ طالب علمی کی تمام یادیں ہمیشہ تازہ رہیں درختوں کے نیچے اپنی سہیلیاں مجھے اس دور میں بھی نظر آتی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ ابھی کوئی شناسا آواز میرے پیچھے سے آئے گی اور میں لپک کر اپنی دوست کی طرف جاؤں گی۔ لیکن طالب علم اور استاد کے رشتے کو پرکھا، سمجھا ،جانا ،اپنے مادر علمی میں یہ میری زندگی پر دورس اثرات مرتب کر گیا، اپنی کلاس کے ساتھ میرا رشتہ بہت خوبصورت رہا استاد اور شاگرد کی دوستی کس حد تک ہونی چاہیے اور کتنی پر اعتماد ہونی چاہیے یہ میں نے وہیں پر سیکھا ۔بولنے کا فن وہیں پر سیکھا لوگوں کو پرکھنے کا فن وہیں پر سیکھا۔

فلم و ٹی وی کے شعبے میں قدم رکھنے کا محرک کیا تھا؟
میں بہت پر سکون انداز میں اپنی لیکچر شپ کر رہی تھی اور زندگی بالکل ایسے تھی جیسے ایک پر امن سڑک پر میں بہت دھیمے انداز میں چلی جا رہی ہوں لیکن میرے اندر کچھ الگ سے کرنے کا جذبہ میرے بچپن سے ہی مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا یہی جذبہ کار فرما رہا اور میں نے ایک ورکشاپ میں حصہ لیا جس میں کچھ لکھنے پڑھنے کا کام سکھایا جاتا تھا وہاں سے سوچ کے نئے در مجھ پر واہ ہوئے اور میں نے فلم ٹی وی پرو ڈکشن باقاعدہ پڑھنا شروع کر دیا یہ اتنا خوبصورت تجربہ تھا کہ اپنی تخلیق کو سمائی اور بصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اس کو مختلف انداز سے لوگوں کے سامنے پیش کرنا اور اس کی داد پانا، اس میں کوئی شک نہیں کہ لائم لائٹ جسے ہم شوبز بھی کہتے ہیں اس کا بہت جادو ہے اور انسان اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن یہ اثر میرے اوپر بہت خاص تجربے اور بہت کچھ سیکھنے جیسا رہا لائم لائٹ کی دنیا اپ کو بہت کچھ سکھاتی ہے اور وہ تلخ بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات بہت دنیا ساز بھی بناتا ہے میری زندگی میں پیش آنے والے تا عمر تجربات اور زندگی کو مشکل حالات میں بھی گزارنے کی باکمال صلاحیت مجھے اسی فیلڈ سے ملی۔

اے ٹی وی پر بطور پروڈیوسر ساڑھے تین سال کا تجربہ کیسا رہا؟
بہت کمال میں نے اپنی زندگی میں وہاں پر کام کرنے سے جو سیکھا وہ ایسے لگا جیسے میں نے چلنا ہی اب سکھا ہے لکھنے کا فن سیکھا موسیقی کو بہت قریب سے اور بدلتی ہوئی موسیقی کو دیکھا پروڈکشن جیسی بہت سنجیدہ فیلڈ جو دور سے بڑی پرکشش نظر آتی ہے اس کو سمجھا۔ اے ٹی وی کا ماحول بہت خوبصورت تھا اس کے بعد کسی اور ٹی وی پہ کام کرنے کو جی نہیں چاہا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ پہلے دن میں اور میری ایک دوست اے ٹی وی کی کینٹین میں کھانے کے لیے گئے یہ جان کر بہت حیران ہوئے کہ صرف ایک ہی ڈش پکی ہوئی تھی خیر جب ہم نے پیٹ بھر کھانا کھا لیا اور بل کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ دوپہر کا کھانا سب کے لیے مفت ہے یہ تو اس دور میں اتنی خوبصورت بات لگی کہ میں آج بھی اس کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتی ہوں، اسی طرح کی اور بڑی خوبصورت یادیں ہیں ٹی وی سے جڑی ہوئی ۔

ریڈیو جوکی (RJ) کے طور پر آپ کو سب سے زیادہ کون سا پروگرام پسند رہا اور کیوں؟
شوبز میں آنے کے بعد میں نے ریڈیو میں کام کرنے کا تہیہ کیا جو کہ میری بچپن کی خواہش تھی ویسے تو ہمارے گھر میں ریڈیو بہت زیادہ سنا جاتا تھا اور اس کو بہت بڑی انٹرٹینمنٹ سمجھا جاتا تھا میری خالہ اور گھر کے باقی تمام لوگ ریڈیو سنتے اور بہت خوبصورت ریڈیو ہمارے گھر میں تھا جیسا کہ کبھی کبھی مجھے کسی فلم کے سین میں نظر آتا ہے لکڑی کا شاندار ،ہم لوگ ریڈیو پاکستان، سیلون ریڈیو اور پڑوسی ملک کے ریڈیو کی نشریات بہت شوق سے سنتے تھے یہ شوق اتنا زیادہ پنپنا شروع ہوا کہ مجھے ازبر تھا کہ کون سا ریڈیو پروگرام کس وقت لگتا ہے، کھیت کھیت ہریالی، متھے چمکن تارے، اور سورج کے ساتھ ساتھ میرے پسندیدہ پروگرام تھے ۔ اور میرا اپنا شو شام سے پہلے اور ایونگ ڈرائیو ٹائم پسندیدہ تھے۔لیکن ریڈیو میں جب میں نے اپنا آڈیشن دیا اور میں اس میں پاس ہوئی اور اس کے بعد اس کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے جانا کہ ریڈیو پر بات کرنا کوئی آسان کام نہیں ایک پوری دنیا آپ کو دیکھ رہی ہوتی ہے ،سماعت کا رشتہ اتنا گہرا اور دیر پا ہوتا ہے،آواز کا اتار چڑھاؤ صرف منظر کا ہی نہیں یا دریا کا ہی نہیں ہوتا، آواز کا بھی ہوتا ہے اور ریڈیو میں آپ آواز سے کبھی دھوکہ نہیں دے سکتے ہمارے ایک عزیز ریڈیو کے پروڈیوسر تھے بچپن میں انہوں نے مجھ سے جب میری باتیں سنی تو انہوں نے کہا یہ بچی کچھ نہ کچھ عجب کرے گی اس کے اندر کہانی سنانے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے پانچ سال ریڈیو میں نے اپنے دل و جان سے کیا اج بھی سب سے زیادہ مجھے ریڈیو یاد آتا ہے لیکن دنیا کے عجب معاملات ہیں اس میں میں پھنس گئی ہوں۔

ریڈیو اور ٹی وی کی دنیا میں کام کرنے کا سب سے چیلنجنگ پہلو کیا رہا؟
ریڈیو اور ٹی وی کا اگر میں آپ کو خلاصہ بتاؤں تو یہ وہ جگہ ہے جو پل پل بدلتی ہے اس کے پل پل کے بدلتے تقاضے اس کی خوبصورتی ہیں اگر آپ وقت کے ساتھ نہیں چلیں گے تو کہیں پیچھے رہ جائیں گے،بعض اوقات ٹی وی پر اپنا سکرپٹ خود لکھنا ہوتا ہے، ریڈیو پر تو سو فیصد آپ نے جو بولنا ہے وہ خود لکھنا ہے ریڈیو اتنا مشکل کام ہے یہ میں نے وہاں پر بیٹھ کر دیکھا کہ ریڈیو کے میزبان کتنی مشکل کام کرتا ہے خاص طور پر ریڈیو پاکستان میں میزبان اپنا پروگرام خود لکھے گا اپنا ٹاپک منتخب کرے گا اپنے گانوں کی فہرست مرتب کرے گا اس کو کمپیوٹر میں سلیکٹ کر کے رکھے گا اسی ہاتھ سے اس کو آپریٹ کرے گا آواز کا اتار چڑھاؤ اور بیک گراؤنڈ میوزک لگائے گا کال سنے گا خبروں کے وقفے پر جائے گا وہ بیک وقت پروڈیوسر رائیٹر ڈائریکٹر ،کانٹیکٹر، آپریٹر سب کچھ ہے یہ کسی بھی چیلنج سے کم نہیں اور ٹی وی پر تو بہرحال ہر لمحہ ہی چیلنج کا ہوتا ہے آپ نے خوبصورت پروگرام کا آئیڈیا چننا ہے اور اس کو تکمیل دینے کے لیے اپنے افسران بالا کو قائل کرنا ہے اور پھر ایک لمبی ریس میں شامل ہو جانا ہے۔

الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں بطور HOD کام کرنے کا تجربہ کیسا ہے؟
میں نے جن ڈیپارٹمنٹس میں کام کیا وہاں کی جاب ہمیشہ سے ہی چیلنج پر مبنی رہی ہے چاہے ریڈیو ہو ٹی وی ہو بطور لکھاری ہو یا الحمرا کی اکیڈمی ،الحمرا کی اکیڈمی میں کام کرنا بہت خوبصورت تجربہ رہا کیونکہ میرے پاس ریڈیو، ٹی وی پروڈکشن، کا ایک طویل تجربہ تھا اور لکھاری ہونے کا بھی اور موسیقاروں ،فنکاروں، گلوکاروں کے ساتھ میری وابستگی بہت عرصے سے رہی اور جب آپ کی نوکری آپ کا محبوب مشغلہ اور محبت بن جائے تو اس سے خوبصورت بات کوئی اور نہیں ہوتی یہاں پر میں نے الحمرا کا پہلی مرتبہ سلیبس متعارف کرانے کی کوشش کی اور اس پر میں ابھی بھی عمل پیرا ہوں کہ اس کو ایک عملی اور جدید شکل دی جائے اس کے علاوہ ماہانہ اور ہفتہ وار پروگرام کی تشکیل دینا بھی بہت خوبصورت عمل ہے اور اتنے زبردست استادوں کے ساتھ کام کرنا جس کا مزہ ہی الگ ہے۔

آپ کے نزدیک پرفارمنگ آرٹس نوجوان نسل کو کیسے نکھار سکتے ہیں؟
– پرفارمنگ ارٹس اگر دیکھا جائے تو اپنے فن کا اظہار ہے چاہے وہ گلو کاری میں ہو، کتھک میں ہو کسی بھی موسیقی کے آلات کو بجانے میں ہو کافی پیچیدہ اور صرف توجہ طلب ہی نہیں بلکہ آپ کو اپنی زندگی کو اس کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے اس کے بعد آپ کا دھیان کسی اور طرف نہیں آئے گا لیکن اگر اپ اس کو وقتی طور پر لیں گے تو بعض اوقات یہ فن روٹھ بھی جاتا ہے جن لوگوں نے اس کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنایا آج ان کا نام نمایاں لوگوں میں شامل ہے اپنے آپ کو پہچاننا اپنے اندر کے فن کو پہچاننا ایک نئے انسان سے شناسائی ہے اسی کو شخصیت کا نکھرنا کہتے ہیں۔

افسانوی ادب کی طرف آپ کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟
بچپن سے مجھے کہانیاں بنانا کسی بھی واقعے کو بیان کرنا بہت اچھا لگتا تھا میں بہت اچھی سننے والی ہوں آپ میرے سامنے گھنٹوں بات کریں میں بہت مزے سے اور تحمل سے سنوں گی اور اپنا معافی ضمیر بیان کرنے کی مجھے کبھی جلدی نہیں ہوتی کیونکہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اس کے اندر تاریخ ہوتی ہے آپ کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے اور بہت ساری ایسی ہی قابل قدر باتیں ہوتی ہیں جو سننے والے کے لیے بہت کارآمد ہوتی ہیں، لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی کی سننا ہی نہیں چاہتے یہیں سے میری کہانی بننے کا سفر شروع ہوا، میں لوگوں کے کرداروں میں ڈھل کر اس کی کردار نگاری، منظر نگاری اپنے ذہین میں کیا کرتی تھی پھر اس کو صفحے پر لکھنا شروع کیا لیکن میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں سب کچھ لکھ دیتی تھی چاہے کسی کو برا لگے یا اچھا، چاہے وہ بات میری ہو یا آپ کی لیکن اس کو ڈھکے چھپے الفاظوں میں لکھنا پرونا اور مطلب اسی طرح سمجھا دینا کافی دقت آمیز مشغلہ ہے بہرحال یہ سلسلہ سکول کالج یونیورسٹی اور تاحال جاری ہے اور شاید جب تک میں زندہ ہوں جاری رہے گا۔

 

آپ کی کتاب "رقصِ آب” کے افسانے کن موضوعات کو چھوتے ہیں؟
میری کہانیاں وہی ہیں ان کے موضوعات وہی ہیں جو آپ کہنا چاہتے ہیں، سننا چاہتے ہیں جو آپ کے دل کی بات ہے لیکن وہ بات آپ شاید اپنے گھر کے کمرے میں تنہائی میں اپنے آپ سے کہہ پائیں اور وہ میں سرعام کہہ دیتی ہوں وہ مجید امجد کے شعر کا مصرعہ ہے نا کہ” دنیا تیرا حسن تیری بدصورتی ہے دنیا اس کو گھورتی ہے "تو میں نے وہی لکھا جو میرے دل نے کہا وہ باتیں جو ہم اپنے تکیے کے نیچے چھپا دیتے ہیں اپنی کتاب میں بند کر لیتے ہیں اپنے آنسوں کو پی کر اپنی ہچکیوں کو دبا کر کسی سے نہیں کہتے میں وہ سب کہتی ہوں اس معاشرے کے دوغلے معیار ،اس کی تصویر کا دوسرا پہلو یعنی کہ ایک اور کہانی ایک اور انسان اس سے ملاقات کرانا یہی میرے موضوعات ہیں۔

مختصر افسانہ اور افسانچہ لکھنے کے لیے کیا خاص مہارت درکار ہوتی ہے؟
دیکھیے آپ کہانی لکھنی شروع کیجئے چاہے وہ سفرنامہ ہے داستان ہے آپ لکھتے جائیے جیسا دیکھا سنا سوچا لکھ ڈالا پھر ناول میں بھی ایک خاص قسم کا پلاٹ چاہیے افسانہ اور مشکل اور اگر افسانہ یا مختصر کہانیاں فلیش بیک کی بات کریں تو میں اسے مشکل ترین کہوں گی سمندر کو کوزے میں بند کر دینا یا ایک ہی گھونٹ میں کافی اور چائے کا مزہ دے دینا یہ بہت مشکل ہے اس کے لیے انسانوں کو پڑھنا ضروری ہے ان کی نفسیات کی نبض پر آپ کا ہاتھ ہونا چاہیے ان کی دل کی دھڑکنوں کو سننے کا شعور چاہیے۔

آپ کی نظر میں ایک کامیاب کالم نگار کی خصوصیات کیا ہونی چاہئیں؟
میں نے کالم بھی لکھے مسلسل لکھے اب پھر اس سفر کو شروع کروں گی لیکن کالم کی میری نظر میں خصوصیت یہ ہے کہ جو رات کو خبرنامے میں آپ نے سنا اسی کو اگر ہم کالم میں بیان کر دیں یا اس کو روزنامچہ بنا دیں ایک اپنی پسند اور ناپسند کا راستہ سمجھ لیں تو یہ مناسب نہیں ہے کالم لکھیے اس میں خوبصورتی لے کر آئیں تاکہ پڑھنے والے کا دل کرے کہ ہمیشہ آپ کی تحریر پڑھے میرے کالم میں شروع اور آخر کی جو لائنیں ہیں وہی اس کا حاصل ہوتی ہے جو میرے قاری کو آخر تک میرے ساتھ جوڑے رکھتی ہیں۔

ریزن آرٹ سے وابستگی کیسے شروع ہوئی، اور اس کا آپ کی تخلیقی زندگی پر کیا اثر ہے؟
الحمرا میں میں نے آٹھ سال الحمرا گیلری میں گزارے اور میری پہلی تعیناتی الحمرا گیلری میں ہی ہوئی آرٹ کو سمجھنا رنگوں کو پہچانا میں نے وہیں پر سیکھا ابھی بھی میں کچھ سکاپچر کی ہلکی شکلیں بنانا ،ریزن آرٹ یہ میں کرتی ہوں اور جب مجھے وقت ملتا ہے میں نے اپنے گھر کا ایک چھوٹا سا کونا اس کام کے لیے اسٹوڈیو کے طور پر رکھا ہے اور میں وہاں پر چاہے آدھی رات ہو یا صبح سویرا میں اپنا کام کر کے اپنے اندر کے ایک اور آرٹسٹ کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

تدریس، پروڈکشن، تحریر اور فنونِ لطیفہ میں توازن کیسے برقرار رکھتی ہیں؟
یہ جو لکھاری ہوتا ہے نا یہ بہت تیز ہوتا ہے بیک وقت یہ مظلوم بھی ہے ظالم بھی ہے یہ اپنا قتل بھی کرتا ہے اور دوسروں کا بھی کرتا ہے تو اسی طرح سے میں بھی ان سب میں اپنے مختلف بچوں کی طرح پیار بانٹتی ہوں اور ان کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہوں، تحریر میں میں موڈی ہوں نہیں لکھوں گی تو کئی مہینے نہیں لکھوں گی تحریریں میرے دماغ کی سٹور میں بیٹھی میرا انتظار کرتی رہتی ہیں لیکن جب میں چاہوں گی تنہائی ملے گی تب لکھوں گی۔اسی طرح اپنا جو ویژول آرٹس ہے جو میرا ریزن ارٹ ہے وہ اگر مجھے کسی وقت بھی کرنا ہے اگر مجھے کسی کو کوئی تحفہ دینا ہے تو وہ میں جلدی میں بھی بنا لوں گی لیکن تحریر اور باقی جو میری دوسری آرٹ کی وابستہ چیزیں ہیں ان کو میں اپنے موڈ پر ہی کرتی ہوں۔

نوجوان خواتین کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی جو فنون یا ادب کے شعبے میں آنا چاہتی ہیں؟
خواتین ہوں چاہے نوجوان لڑکیاں ان کو کہوں گی کہ اگر وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے اندر ایک لکھاری ہے تو بہت سا پہلے پڑھیں ہر زبان کے ہر لکھاری کو تھوڑا تھوڑا ضرور پڑھیں سب کا ذائقہ ضرور چکھیں اس کے بعد خوب لکھیں یہ سوچے بغیر کہ کوئی کیا کہے گا میرے شوہر نے ایک مرتبہ مجھے کہا تھا کہ جب تم کچھ لکھتی ہو نا خاص طور پر کالم تو ایک مرتبہ مجھے پڑھا لیا کرو میں دیکھوں تم نے کیا لکھا ہے کیونکہ میں نے ایک مرتبہ ایک حاملہ عورت کے بارے میں لکھا تھا کہ مجھے حاملہ عورتیں بہت اچھی لگتی ہیں کیونکہ وہ ایک جنم دینے کے ایک خوبصورت تجربے کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہیں تو ان کو شاید یہ حاملہ کا لفظ برا لگا جس پر میں نے یہ کہا کہ دنیا کا ہر ذی روح اس سے مبرا نہیں ہو سکتا آپ اور میں اسی عمل کے ذریعے اس دنیا میں آئے ہیں لہذا ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کو اپنی تمام تحریریں دکھاؤں اور آپ سے کوئی اجازت لوں اگر اپ مجھے اجازت دیں تو کھلی طرح سے دیں یہ اس طرح ڈھکی چھپی انداز میں محبت نہیں ہوتی محبت ہوتی ہے تو بانگ دھل ہوتی ہے۔ بس پھر اس دن کے بعد انہوں نے مجھ سے اس بارے میں کوئی سوال جواب نہیں کیے اور کہا تم جو کر رہی ہو وہ بہت اچھا کر رہی ہو تو آپ لکھیں بہت لکھیں اور اگر آپ گانا گاناچاہتے ہیں تو گائیں ایسا گائیں کہ سب سنیں اگر کھانا بنانا چاہتی ہیں تو ایسا بنائیں کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ جائیں جہاں پر آپ کھڑی ہیں اس کے نیچے دونوں قدم کی زمین آپ کی اپنی ہونی چاہیے پھر یہ زندگی آپ کی ہے چاہے آپ کچن میں زندگی گزار رہی ہیں یا کسی سٹوڈیو میں بیٹھی پروڈکشن کے اصول بتا رہی ہیں یہ زندگی آپ کی ہے اور اس پر آپ کو فخر ہونا چاہیے اور ہر لمحہ تبھی آپ کا ہوگا اور آپ حقیقی معنوں میں فاتح قرار پائیں گی۔

Author

5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x