اُردو ادباُردو شاعریغزل
غزل / دکھ عیاں ہو گیا چھپا کر بھی / اجمل فرید
غزل
دکھ عیاں ہو گیا چھپا کر بھی
راز کھلتا نہیں بتا کر بھی
میں اسے بے نقاب کر نہ سکا
اس کے بلکل قریب جا کر بھی
غم کی دولت بھی کم نہیں لیکن
بھوکا رہتا ہوں دھوکے کھا کر بھی
خود فریبی میں رہ رہا تھا میں
اس کے دل میں جگہ بنا کر بھی
یاد جگنو ہے اس اندھیرے میں
ٹھوکریں کھاؤں گا بھلا کر بھی
تو نہیں ہے تو کیا بنے گی فضا
بانجھ ہیں یہ گھٹائیں چھا کر بھی
تنگ دل پر نہ کھل سکی وسعت
پاس دریا کے گھر بنا کر بھی
میرا سایہ حریف تھا میرا
مطمئن ہوں شکست کھا کر بھی




