کتاب /ایقان .. تبصرہ /پروفیسر زاہد مرزا

کتاب :- ایقان
مصنف :نعیم رضا بھٹی
تبصرہ :- پروفیسر زاہد مرزا
اک شعر ابھی تک رہتا ہے
شاعری کی تفہیم اور عرفان شعر کی ذیل میں آغاز سے اب تک کتنی ہی کوششیں ہوئیں، کتنے ہی اوراق سیاہ کیے گئے، کتنی ہی صدیاں اور زمانے شعر کی ماہِیَّت اور طلسم کو سمجھنے میں لگا دیے گئے، لیکن اعتراف کرنا پڑے گا کہ شعر اور شاعری میں آج بھی اتنا ہی طلسم باقی ہے جو روزِ ازل تھا، اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں جستجو کی کسی اور سطح پہ اس کے اندر چھپے اور خزانے بھی ابھر کر سامنے آ جائیں اور آنے والے زمانے شاعری کے کسی ایسے جوہر سے بھی مل پائیں جو ابھی تک معلوم اور محسوس کی حد سے باہر ہے۔ یہ ایک ایسا طلسم ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ہوشربا ہوتا جا رہا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے درست کہا تھا
شعر سے کم نہیں انسان کا پیدا ہونا
وقت کی تقویم میں ایسے بہت سے لمحے آۓ جب ایسا لگا کہ اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ نقد و نظر سے وابستہ لوگوں نے اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ اچھا شعر کہا جا چکا ہے، اچھی زمینوں پہ طبع آزمائی ہو چکی، سارے منطقے ضبطِ تحریر میں لائے جا چکے ہیں لِہٰذااب نئے مضمون ، احساس اور نئے شعر کی تلاش دیوانے کا خواب ہے۔ اردو غزل تو کئی بار یہ طعنہ سن چکی ہے کہ اب اس کے دامن میں تکرار کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔ عین اسی لمحہء یاس میں کوئی چمچماتا ہوا نواں نکور مصرع یکسانیت کے سکوت کو توڑ کر ساری فضا کو یکسر بدل دیتا ہے اور غلام محمد قاصر کی مسکراتی ہوئی آواز سنائی دیتی ہے
اک شعر ابھی تک رہتا ہے
شعر کے اندر چھپی ہوئی ایسی ہی بے کنار دنیائیں اور لامحدود امکانات کے احساس نے مجھے گدگدایا جب میں نے نعیم رضا بھٹی کے پہلے اور تازہ مجموعے کی ورق گردانی شروع کی۔ ابھی ایک ہی صفحہ پلٹا تھا کہ ایک نواں نکور مصرع میرا راستہ روکے کھڑا تھا
تا ابد لکھا رہے گا لبِ دریاۓ فرات
کوفہء مرگ کہاں عزتِ سادات کہاں
ابھی یہ حیرت ہی نہ ٹوٹی تھی کہ مذہبی شاعری جو اپنے مضمون اور امکانات کے اعتبار سے limited paradigm کی شاعری ہے اس میں بھی ایسا شعر نکل سکتا ہے کہ ایک اور شعر نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی
مدحتِ آل رسولِ عربی کیسے ہو
لغتِ عالمِ فانی کی یہ اوقات کہاں
شاعر نے دوسرے مصرعے میں "لغتِ عالمِ فانی” کی ترکیب وضع کر کے ایک چابک دست قلمکار ہونے کا ثبوت دیا۔
اس کتاب پر کوئی راۓ دینا کئی حوالوں سے مشکل ہے جن میں سرِ فہرست میرا اور نعیم رضا کا ذاتی تعلق ہے۔ دوستوں کو سراہنا اور ان کے کام پہ فخر کرنا جس قدر آسان اور خوش کن ہے اتنا ہی زیادہ مشکل اس پہ تنقیدی نظر ڈالنا ہے۔ اس مشکل میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب کتاب کے آغاز میں قبلہ گاہی ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا مضمون سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی راۓ شعری منظرنامے پر کسی وحئ غیر متلو سے کسی طرح کم نہیں۔ ان کے بعد علی زیرک کی تفصیلی راۓ بھی کتاب میں شامل ہے جو نہ صرف بہترین شاعر ہیں بلکہ بڑے زیرک ناقد بھی ہیں اور لفظ و معنیٰ کے اس جہان کی بھی خبر رکھتے ہیں جہاں الفاظ و معانی کا رشتہ signifier اور signified کا ہے۔
شعر کا ظہور، شعور کی اس سطح پر ہوتا ہے جہاں تخلیقی صلاحیت، تخلیقی تجربہ اور تخلیق کار کا باطن اتصال کرتے ہیں۔ نعیم رضا اہنے باطن اور خارج کے تمام عوامل کو اپنے شعر میں متشکل کرنے کا ہنر جانتا ہے
نقشہ کسی خزانے کا ہو گا تمہارے پاس
رستے میں جس کے سوئے ہوئے خاندان ہیں
یہ شعر جہاں معیشت کی تگ و دو کی طرف اشارہ ہے وہیں تاریخ عالم میں معاش کے حصول کیلئے ہونے والی بھیانک وارداتوں کے احساس اور ادراک کی خبر دیتا ہے۔ ایک اور شعر دیکھیں
جس کو ماں باپ کا خیال نہیں
پھینک کر تھوک اس کے گھر سے نکل
اس شعر میں بھی شاعر کا معاشرتی شعور اور معاشرتی اقدار کے ساتھ جڑت واضح ہے۔
جدید تنقیدی نظریات شاعر کے داخلی اور خارجی عوامل کو المعنیٰ فی بطن الشعر کے مصداق مباحث کا حصہ نہیں بناتے اور شعر کی قدر کا تعین متن اور فنی لوازم کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ نعیم رضا کی شاعری کو ہر دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے بلکہ نعیم رضا کی شاعری اس وقت کھل کے سامنے آتی ہے جب اس کو تمام نسبتوں سے آزاد کر کے صرف تخلیقی اور شعری لوازمات کے تحت پرکھا جائے۔ اس نظر سے دیکھیں تو قاری پر کھلتا ہے کہ نعیم رضا نے بہت سے لگے بندھے اصولوں کو یکسر بدل دیا ہے اور کئی پرانی تصویروں میں نئے رنگ بھرے ہیں
جیب بھری رہتی تھی پھر بھی
ہر خواہش کی ہنسی اڑائی
نا آسودہ خواہشوں پہ افسردہ ہونا اور شکوہ کناں ہونا ایک پرانا شعری چلن ہے جس کو بڑی سہولت سے بدل کر خواہش کے ناآسودہ رکھنے کو اختیاری کیفیت ظاہر کر کے ایک نئے چلن کو رواج دیا ہے
آنکھ میں ایک سرخ ڈورا ہے
خواب میں ایک شکلِ بد آئی
اس شعر میں ایک بہت پرانی تصویر میں بڑے تازہ رنگ بھرے ہیں۔ آنکھ کی سرخی عام طور پر بے خوابی اور رت جگے کو symbolize کرتی ہے۔ یا اگر اس کو مثبت معنوں میں استعمال کیا جاۓ تو آنکھ کی سرخی شبِ وصال کی تھکن کا اشارہ ہے۔ لیکن اس شعر میں بے خوابی یا رت جگے کی بات نہیں۔ یہاں نیند بھی ہے اور خواب بھی ہے لیکن خواب ایسا ہے جو پرسکون نیند کا دشمن ہے اور نیند میں ہوتے ہوئے بھی اعصاب اسی کے حصار میں ہیں حالانکہ نیند تمام آلام سے وقتی فرار کا زریعہ ہے
میں دستک دینے والوں پر ہنسوں گا
مجھے لگتا ہے در کوئی نہیں ہے
اس شعر میں بھی ایک لگے بندھے اصول سے انحراف کیا گیا ہے اور بالکل نیا شعری وجود تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شعری تفہیم میں دستک کا اشارہ یاد دہانی اور نارسائی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس شعر میں دستک اور در کا تلازمہ بالکل نئے رنگ میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ یہاں دستک ان سنی کرنے والوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے اور دستک دینے والوں کی ہنسی اڑائی گئی ہے جو آج کے مادی دور میں بھی محبت اور تعلق داری کا دم بھرتے ہیں۔
نعیم رضا بھٹی اور اس کی شاعری ایک دوسرے کا عکس ہیں یعنی دونوں ہی فی الفور سمجھ میں نہیں آتے۔ پہلی کئی ملاقاتوں میں نعیم پر شاعر ہونے کا شبہ تک نہیں ہوتا۔ رفتہ رفتہ نعیم کے منہ سے شعر سن کے یا شاعروں کے ساتھ اس کی نشست سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جنھیں عمر کے ایک مخصوص حصے میں شاعر ہونے کی بدگمانی ہوتی ہے، پر جیسے جیسے اس کے قریب جاتے ہیں اس کے اندر چھپے ہوئے اس شاعر سے ملاقات ہوتی ہے جس کو اس نے بے اعتنائی اور بے مروتی کے پردوں میں چھپا کے رکھا ہوا ہے تا کہ اس پر معاشی تگ و دو کی پرچھائی نہ پڑے اور مشاعرے باز شاعری کی دھول سے محفوظ رہے۔ یہ دبیز پردے اس کے خالص پن کو دوسرے شاعروں کے اسلوب کے سائے سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر آپ کی مستقل مزاجی اس دورانیے میں آپ کا ساتھ نہ چھوڑے تو پھر آپ کی ملاقات ایسے ایسے خوبصورت اشعار سے ہوتی ہے
تمھارے مخملیں گالوں کے صدقے
ہم اپنی خستگی بھی جی رہے ہیں
یہ جراحت ہی ہمیں سبز کیے رکھتی ہے
زخم سے خوں کی روانی کے سبب زندہ ہیں
ایک دن جشن میں بدل گیا تھا
احتجاجاً کیا گیا افسوس
مٹکے بھر جانے کے بعد
کیا بنتا ہے لہروں کا
اک صدا کھینچ کے کشکول الٹ دیتا ہوں
اور خیرات کسی سمت سے چل پڑتی ہے
بجھ چکے ہیں چراغ اندر سے
اس میں سورج کا کوئی ہاتھ نہیں
سارے اسرار ہیں جبیں پہ مری
منکشف سا سراغ ہوں لڑکی
واجبی نین نقش ہیں اس کے
پھر بھی میں خوش ہوں وہ ملا مجھ کو
شکر ہے رات اس ستم گر کا
حسن تھوڑا سا کم لگا مجھ کو
خوشی اس بات کی ہےکہ نعیم رضا جو کر رہا ہے وہ مکمل ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ثروت حسین اور مجید امجد کی شاعری کو قبول عام کی سند کیوں نہیں ملی لیکن وہ پھر بھی مطمئن ہے کیونکہ یہ رنگِ غزل اس کا نہایت ذاتی ہے لہذا وہ بڑے مان سے اقرار کرتا ہے
کورا ہونے سے پیشتر میں نے
ایک اک رنگ اختیار کیا
وہ جانتا ہے کہ اس غزل کا ثمر مشاعروں میں برسائے جانے والے ڈونگرے نہیں بلکہ ایک دھیمی سی سلگن اور خاموش سی جلن ہے لیکن وہ پرائی جنت کی بجاۓ اس من پسند دوزخ کے ساتھ بہت مطمئن اور قانع ہے۔ وہ خود کہتا ہے
ایک تو ہے شدید ویرانی
اور کیا کیا مرے غبار میں ہے
یہ اس کا یقین ہے کہ اس کی شاعری کا مقدر چنیدہ لوگوں کی الماری ہے اور اسی یقین سے "ایقان” متشکل ہوئی ہے۔ اس مجموعے میں شعری تخلیق اور تخلیقی عمل کے حوالے سے قاری کے لیے بہت سا رزق ہے۔ کہیں کہیں تھوڑی سی عجلت بھی نظر آتی ہے جو مصرعے کے ابلاغ میں حائل ہونے لگتی ہے لیکن یہ بھی شاید نعیم رضا کی شخصیت کا ہی ایک رخ ہے کہ وہ چاہتا ہی نہیں کہ ساری بات کا ابلاغ ہو جائے۔
"ایقان” کی شاعری میں اتنا کچھ ہے کہ اسے پڑھا جائے گا اور اگر اس میں اتنا کچھ نہ بھی ہو پھر بھی یہ کتاب یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اردو غزل کی جولانیاں ابھی باقی ہیں اور
اک شعر ابھی تک رہتا ہے
پروفیسر زاہد مرزا




