اُردو ادباُردو نثرنثر پارہ

خط بنام ہم جولی/ کلثوم پارس

خط بنام ہم جولی

عزیز از جان !

آداب و تسلیمات!

تم خیریت سے ہو یہ میں جانتی ہوں مگـر میں خیریت سے نہیں ہوں یہ شاید تم نہیں جانتی۔ خیر میرا بخیر نہ ہونا تمہاری ہی بدولت ہے۔ تمہارے اکثر پیغامات مجھے ملتے رہتے ہیں۔ تم سے گفتگو روبرو بھی ہو سکتی ہے۔ بہت سی باتوں
پہ ہنسا جا سکتا ہے اور بہت سی باتوں پر رویا بھی جا سکتا ہے مگر دل نے چاہا کہ آج بذریعہ قلم و قرطاس تم سے کچھ باتیں کی جائیں۔

مگر کیا ؟؟؟؟؟

باتیں تو بہت ہیں مگر انتظار اس بات کا ہے
بات سے بات نکلے تو بات بنے ( ک۔پ)

بات سے بات نکالنا بھی ایک ہنر ہے مگر یہ ہنر ہر کس و ناکس کو نہیں آتا۔ اگر میں یہ کہوں کہ مجھے اس ہنر پر پوری دسترس حاصل ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔

تم اکثر شکایتوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتی ہو کہ تمہارے ساتھ یہ زیادتی ہو گئی , فلاں نے تمہارا دل دکھایا تو فلاں نے تمہارا حق کھایا۔۔۔۔تمہیں وہ نہ ملا جس کی تم اہل تھی یا وہ مل گیا جس کو سنبھالنے کی تم میں سکت نہ تھی۔۔۔۔ یا استطاعت کے باوجود سنبھال کر نہ رکھ پائی۔
جو اہل تھے نااہل ٹھہرے اور نا اہل کرسیوں پر براجمان ہو گئے ۔۔۔ انصاف کا ترازو اس جانب جھک گیا جس طرف سب کا جھکاؤ تھا۔ یہاں انصاف کی فصل اگتی نہیں یا اگنے نہیں دی جاتی۔۔۔۔۔فلاں شہر کے فلاں محلے کی فلاں گلی میں کسی کی محبت نیلام ہو گئی تو کسی کی عزت۔

تمہاری ایک شکایت یہ بھی ہے کہ جہاں چرب زبانی عقلمندی کی دلیل سمجھی جائے وہاں کے عقل مندوں کا کیا حال ہو گا؟؟ کہنے کو بہت کچھ ہے اور سننے کو بھی مگر۔۔۔ قصہ مختصر۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سب میں تم نے آج تک کیا کیا ؟؟ کیا تم نے وہ کیا جس کا تم کو حکم ملا تھا؟ تم جس فرض منصبی پر فائز تھی وہ احکام پوری طرح بجا لائی یا کوتاہیوں کی نظر ہو گئے؟؟

دوسروں کی محبت پہ آنسو بہانے والی!!! کیا کبھی تم نے خود سے محبت کی ہے اب تم کہو گی کہ بھلا خود سے محبت کون نہیں کرتا۔ اپنا محاسبہ نہ کرنا اور خود کو آگ کے حوالے کرنا کیا یہ اپنے آپ سے محبت کرنا ہے؟؟چھوڑو !!! تمہاری موٹی عقل میں ویسے بھی یہ باتیں نہیں آئیں گی یہ کہانی پھر کسی اور دن پہ اٹھا رکھو۔

کوئی اور بات کرتے ہیں۔ آج کل موبائل پر ریلیز بنانے کا ٹرینڈ کتنا چل رہا ہے رنگ گورا کرنا ہو ,سفید بالوں کو سیاہ کرنا ہو , کپڑے کیسے پہنیں یا اتاریں۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کسی کو عزت کیسے دینی اور بے عزتی کیسے کرنی ہے سارے گر اور نسخے گھر بیٹھے میسر ہیں مگر دیکھو نا!!! خود کو حسین بنانے کے چکر میں سارا حسن کہیں کھو گیا ہے وہی حسن جو شوہر کو بیوی میں نظر آتا ہے وہی حسن جو حیا میں ہے۔۔۔وہی حیا جو بیٹی اپنے باپ اور بھائی سے کرتی ہے۔ نادان حوا کی بیٹیوں نے جب سے سارا حسن گارے مٹی میں تلاشنا شروع کیا ہے تب سے حسن کہیں کھو گیا ہے۔

گارا مٹی ؟؟؟ اب تم کہو گی اتنی مشکل باتیں نہ کیا کرو یہ مشکل باتیں سب کی سمجھ میں کہاں آتی ہیں۔
تو چلو اس کو آسان کرتے ہیں۔۔۔۔
"ٹھیکرے کی مانند کھنکھناتی مٹی” یعنی انسان یعنی میں۔۔۔۔ اور تم ۔۔۔۔۔یہ تو سمجھتی ہو نا؟؟؟۔

کمال ہے بھئ!! تم بھی تو وہی کرتی ہو جو سب کرتے ہیں کہیں تم بھی دوسروں کی طرح منافق تو نہیں ہو۔ جن غلط باتوں نازیبا رویوں پر کڑھتی ہو , جلتی ہو ,سسکتی ہو اور کبھی کبھی آہیں بھی بھرتی ہو کبھی اس آئینے میں خود کو بھی اتارتی ہو؟؟ جس میں دوسروں کے عیبوں کی نشاندہی کر کے اپنی خوبصورت باتوں کے میک اپ سے ان کی بدصورتی کو چھپانے کے لیے ڈھیروں مشورے دیتی ہو۔

کہیں تم بھی اس ظاہری حسن کو نکھارنے میں اتنی مگن تو نہیں؟؟؟ جہاں تیرے اندر کی پارس بدصورت ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی میرے بھی قریب آؤ !! میرے حسن کو بھی نکھارو ۔۔۔۔۔ سنوارو۔۔۔۔ جب میں توانا ہو جاؤں گی, نکھر جاؤں گی تو لوگ تم میں اپنا عکس دیکھ سکیں گے۔

"روح شاد ہو تو جسم آباد رہتا ہے۔ ” اسی جملے کے ساتھ میں اپنے خط کا اختتام کرتی ہوں
ہمیشہ سکھی رہو۔۔۔۔

والسّلام
تمہاری سب سے بڑھ کر خیر اندیش
روحِ من
جانِ پارس

✍️کلثوم پارس

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x