اُردو ادبافسانہ

پتھر / الماس شیریں

انسانوں کے اس جنگل میں ہر طرف سنگ بکھرے ہوئے ہیں۔  انسانی شکل میں پتھروں کے مجسمے جابجا پھر  رہے ہیں۔  جو ایک دوسرے سے ٹکراتے پھرتے ہیں. کبھی یہ مجسمہ باپ کی شکل میں ہوتا ہے۔ کبھی بھائی اور کبھی بیٹے کی صورت میں. عورت جس کو اللہ نے محبت کی مٹی سے گوندھا ہے. ان مجسموں سے ٹکرا کر لہولہان ہوتی رہتی ہے.

وہ ایک نازک سی خوابوں میں رہنے والی رنگوں اور پھولوں کی دیوانی لڑکی تھی۔  پھر ایک روز اسکی  شادی شوہر نامی مجسمے سے ہو گئی. وہ تتلی کی طرح نرم و نازک لڑکی شریک حیات کا ایک تصور لے کر زیست کے نئے سفر پر چل پڑی . مجسمہ چا ہتا تھا کہ وہ اس کی ہر بات کو حکم کا فرجہ سمجھ کر فوراً بجا لائے۔ کیو نکہ اللہ نے اسے عورت پر برتری دی ہے. پر وہ یہ نہیں جانتا اللہ نے اسے رکھوالا بنایا ہے نہ کہ جبر  کرنے والا حاکم. وہ پھولوں کی دیوانی لڑکی مرجھا گئی. پھر اللہ نے محبت کی مٹی سے گوندھی  ہوئی کوکھ  سے ایک اور مجسمہ عطا کیا. وہ نادان مرجھائی ہوئی دیوانی لڑکی کھل اٹھی۔ اس کے مردہ وجود میں پھر سے جان آگئی۔ وہ اپنے بیٹے کی حرکتوں پر کھلکھلا کر ہنستی۔ اب اس کو اپنے حاکم شوہر کی بھی کوئی بات بری نہ لگتی تھی۔ بس وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مصروف رہتی۔ وہ اس کے خوب نخرے اٹھاتی. بیٹا سکول جانے لگا تو وہ پورے گھر میں بولائی بولائی پھرتی۔ جب وہ آ جاتا تو پورا دن اس کی ناز برداریوں میں گزر جاتا۔ ایسے ہی وہ نخرے اٹھواتا کڑیل جوان ہو گیا۔ ماں دیوانی اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہتی بیٹا نوکری کے لئے دوسرے شہر جانے کی ضد کرنے لگا باپ نے اجازت دےدی . بیٹا ماں کو منانے کی تگ و دو میں تھا کہ بہت اچھی نوکری ہے اور تنخواہ بھی زیادہ ہے۔ ہر ماہ آپ کو الگ سے پیسے بھیجوں گا. مگر اس دیوانی کو بھلا پیسوں سے کیا غرض، وہ تو اس مجسمے کے چہرے کو تک رہی۔ جہاں ماں کی محبت کے بجائے دوسرے شہر جانے کی خوشی اہم تھی. آخر وہ چلا گیا اور بیٹے کی دیوانی ایک بار پھر مرجھا گئی. بیٹا ایسا گیا پھر کبھی پلٹ کر نہ آیا۔ وہیں شادی کرکے گھر بسا لیا۔ ماں دیوانی فون کو تکتی اور کبھی دروازے کو، کہ کہیں تو گھنٹی بجے گی۔ بیٹے کی آواز سننے کو سماعتیں ترس گئیں۔ فون ہاتھ میں لئے بیٹھی رہتی۔ بیٹے کو پکار پکار آکر حلق سوکھ گیا. آنکھوں سے آنسو کی جگہ خون اس کی یاد بن کر بہتا مگر بیٹے کا دل نہ تڑپا. ماں دیوانی تڑپ تڑپ کر لہولہان ھو گئی. آخر بیٹا بھی پتھر کا مجسمہ نکلا. دیوانی ماں اس پتھر کے مجسمے سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی۔

Author

Related Articles

Back to top button