اُردو ادباُردو شاعرینظم

وحدانیت کی سڑک سے / علی زیوف

وحدانیت کی سڑک سے

 

عجیب موڑ ہیں
راستے گھگو گھوڑے کی رنگینی سے عاری
گھنگھور ہیں
دل کی سٹرک میں
گیسوئی کناروں کی فٹ پاتھی روانی
خواباتی بَےکلی کی مجموعی ویرانی
ہم سے ہمارے ہونے کا جواز طلب کرتی ہوئی تم
اور
تم سے جنوں و جفا کی رَسَد بٹورتے ہوئے ہم
کہیں کسی سگنل کی باہمی خرابی کے عوض
تو
نہیں ملے ہیں
درستی کی وسطی شاہراہ پر اِکھٹے چلتے ہوئے
کئی بار کیے شکوے گِلے ہیں
کئی بار تم نے
منظر سمیٹ کر چشمِ زَدَن کے کشکول میں مجھ کو مُقید کیا
رات کی اَطلسی روشنی میں
میرے وصل کا الاؤ دہکایا
دن کی تیرگی میں میرے لیے
ہجر کی راکھ سے آراستہ کلنک کا ٹِیکا سجایا
تمہارے پیکری دراز دستوں میں
ہمیشہ سے قدرتی غنائیت نمایاں رہی
اور
میرے وصف میں خِداع کی سرشت کا دور بڑھتا رہا
تمہارے آئینۂ ساز اَنداز سے
عجیب موڑ سکونی پگڈنڈیوں میں ڈھل سے گئے
میرے گردیلے راستوں کی کشش
منزلِ وفا کی سمت گامزن رہنے لگی
اُس معجزۂ یقیں کی
طِلسمی کہانی کو عملی جامہ پہنانے کی دُھن میں
جس کا ذکر نسائی حقوق کا اِحاطہ کرے
وحشت بھری مردانگی کے گدلے خدا کا
عَلٰی الاِعلان مُنکر بَنے
ہماری واحدانیت کی زنبیل میں
محبت سے گلے ملتا جوڑا بَسے
جو تمہارے باہم متصل سگنلوں کی رنگینی کا
ہرگز گھگھو گھوڑا نہیں
دل کی گیسوئی سڑک پر رواں کوئی بَے وفا بھگوڑا نہیں

Author

  • توحید زیب

    روحِ عصر کا شاعر ، جدید نظم نگار ، نظم و غزل میں بے ساختگی کے لیے مشہور

Related Articles

Back to top button