اُردو ادباُردو شاعریغزل
غزل / باعثِ زندگی بھلا پانی / جلیل عالی
غزل
باعثِ زندگی بھلا پانی
موت کا رقص سر پھرا پانی
ہم نے جھیلا ہے کیا سے کیا پانی
ایسا دیکھا کہاں کڑا پانی
بند ٹوٹا اِدھر جو دریا کا
آسماں سے برس پڑا پانی
پُشت پر سیلِ تند کی ہو جو شِہ
چھوٹا پانی بھی ہے بڑا پانی
غیظ تھمتا نہیں ہے بادل کا
جانے کیا آگ پی گیا پانی
جانے گلیوں گھروں سے کب نکلے
ممٹیوں تک چڑھا ہوا پانی
طے جو اُس سے معاملے نہ کیے
اور دشمن بنا لیا پانی
اپنے پانی تھے کب کٹھور اتنے
ہے کوئی دور پار کا پانی
کر کے گارا ہر ایک بستی کو
خود سمندر میں جا گرا پانی
آپ اپنے حصار میں ہیں سبھی
جیسے پانی میں ہو گھرا پانی
روند جاتا ہے راہ کی ہر شے
پانیوں سے ڈرا ہوا پانی
بحر در بحر زندگی عالی
ایک کے بعد دوسرا پانی




