عزم و استقامت کی علامت / میاں محمد محسن حاصل پوری

جذبہ، حوصلہ اور ہمت جب تینوں اکٹھی ہو جائیں تو پھر انسان بڑے سے بڑے طوفان سے ٹکرا جاتا ہے۔ لیکن یہاں بات ایک نرم و نازک بچی کی ہو رہی ہے۔ جس نے اپنی کم عمری میں جذبے، حوصلے اور ہمت سے وہ کر دکھایا جو ہر کوئی نہیں کر سکا۔ ہاں یہ ایک کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے مائدہ عاصم کی جو اپنی ہم عصر لڑکیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے کھیلوں میں مشغول نا ہوئیں بلکہ ایک بہت بڑے کھیل کو اپنا مسکن بنایا اور اسے عبور کرنے کا پختہ عزم کیا۔ ایک ایسا کھیل جسے خطرناک کھیلوں میں شامل کیا جاتا ہے، جس میں جان کی بازی لگانا پڑتی ہے، اسے گھڑ سواری کے نام سے جانا جاتا یے۔ گھڑ سواری کرنا یا گھوڑوں کی دوڑ میں حصہ لینا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے بہت بڑا جگرا چاہیے ہوتا ہے۔ اسے دل، جگرے کا کھیل بھی کہا جاتا ہے۔ گھڑ شہسوار بہت بہادر لوگ ہوتے ہیں جو اپنی جان کو داؤ پر لگا کر مقابلہ کرتے ہیں۔ گھڑ سواری سنت رسول بھی ہے۔ پرانے وقتوں میں بہت بہادر شہسوار ہی گھوڑوں پر بیٹھ کر جنگیں لڑا کرتے تھے۔ تاریخ میں گھوڑوں کو جنگوں میں تقریباً ہمیشہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے پہل گھوڑوں کو جنگوں میں استعمال کا ثبوت آثارِ قدیمہ سے 4000 سے 3000 ق م میں ملتا ہے۔ تانبے کے دور کے اختتام پر گھوڑوں کو جنگوں میں عام استعمال کیا جانے لگا تھا۔ جدید مشینوں نے گھوڑوں کی جگہ جنگوں میں لے لی ہے تاہم جنگی رسومات کی ادائیگی میں گھوڑے آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔
گھوڑے استعمال کرنے کے لیے انسان اور گھوڑے کے درمیان کسی قسم کا رابطہ بہت ضروری ہے۔ عموماً انسان گھوڑے کی پشت پر زین پر بیٹھتے ہیں اور گھوڑے کے منہ میں لگام ڈالی جاتی ہے جس کی مدد سے گھوڑے کو اپنی مرضی سے چلایا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات گھوڑوں پر بغیر زین کے سواری بھی کی جاتی ہے اور خاص مواقع پر گھوڑوں کو بغیر زین کے مخصوص کام کرنے کے لیے بھی تربیت دی جاتی ہے۔
مائدہ عاصم جیسی کم عمر نرم و نازک بچی نے بھی گھوڑوں کی دوڑ میں حصہ لے کر یہ ثابت کر دیا کہ اپنے پختہ عزم سے ہر بڑی سے بڑی چوٹی کو بھی عبور کیا جا سکتا ہے۔ مائدہ عاصم نے گھوڑوں کی دوڑ کے مقابلے میں حصہ لے کر نا صرف بہادری کی ایک تاریخ رقم کی بلکہ دوسری بچیوں کے لیے عزم و استقامت کی ایک علامت بھی بن گئی۔
مائدہ عاصم نے پاکستان کی دوسری شہسوار خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
مائدہ عاصم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مثال ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ان کو محنت اور ہمت سے حقیقت میں بدلہ جا سکتا ہے، اس کے لیے نازک مزاج اور عمر بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
مائدہ عاصم ان لوگوں کے لیے بھی ایک روشن مثال ہے جو خواب دیکھتے ہیں اور انہیں حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں۔
اللّٰہ کرے مائدہ عاصم اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے گھڑ شہسوار کی حیثیت سے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرے۔ آمین
اللّٰہ پاک اس بچی کو نظر بد سے محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین




