کالم

قبضہ مافیا یا مذہبی مافیا/عامر شہزاد

 

جرم جب مذہبی لبادے میں ہو تو جذباتی اشتعال میں اپنی پناہ ڈھونڈتا ہے

بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ صرف یہ کہہ کر ختم کر دی جائے کہ ریاستی اقدام درست ہے یا مذہبی طبقہ کا اشتعال برحق ہے۔۔

معاملہ کی جڑیں بھوک میں پیوست اور اس کی شاخیں ہوس سے جڑی ہیں۔

ریاست اپنے ڈنڈے کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہے وہ کبھی بھی عوامی تناظر میں نہیں سوچتی اور رعونیت کا ایک ہوائی ڈنڈا مذہبی طبقہ بھی ہمیشہ سنبھالے پھرتا ہے

جب ہم اس معاملے کا طالب علمانہ جائزہ لیتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ دو ڈنڈا برداروں کا باہمی تصادم ہے۔

ناجائز تجاوزات کو کسی بھی طرح سے درست نہیں مانا جا سکتا۔خواہ وہاں پر کوئی بھی دھندا ہو رہا ہو۔۔کوئ مٹھائی بیچ رہا ہو یا کسی نے انڈر گارمنٹس بیچنے کی ریڑھی لگائی ہو یا خواہ کسی نے مذہبی دکان کھولی ہو اور خدائی لفافوں میں پیک کر کر کے تعصب بیچ رہا ہو۔۔

قبضہ غیر قانونی ہے تو دوکان جو بھی اور دوکاندار کوئی بھی ہو اسے اس جگہ پر تسلط کے دعویٰ سے کنارہ کش ہونا ہو گا۔

ہر آنے والی نئی حکومت اپنے تعمیراتی کام اور ترقیاتی منصوبوں کی ابتدا ناجائز تجاوزات کے خاتمہ سے ہی شروع کرتی ہےاور مشاہدہ  یہی ہے کہ ترقی کا تمام پروگرام بس تجاوزات کے خاتمےتک ہی محدود ہو کر ہی رہ جاتا ہے

ہماری ترقی کا اونٹ ہمیشہ توڑ پھوڑ سے ہی اپنا سفر شروع کرتا ہے اور پھر وہیں پر ہی بیٹھ جاتا ہے۔۔

چند دنوں کے ہٹو بچو کے شور کے بعد پھر وہی تجاوزات ، وہی رونقیں وہی چہل پہل اور وہی سو کالڈ قبضے۔

موجودہ انتظامیہ کا بھی ناجائز تجاوزات سے متعلق موقف کافی سخت رہا ہے ۔پہلے بات صرف سڑکوں اور مارکیٹ تک محدود تھی لیکن بات وہاں سے  نکلی اور مذہبی طبقہ کے گلے پڑ گئی۔۔ اور  اب وہ  سڑکوں پر گلے پھاڑ پھاڑ کر انتظامیہ کو للکارتے پھرتے ہیں۔

ہمارے لئے یہ منظر نئے نہیں ہیں اور ایسا بہت بار ہوا ہے بلکہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ اسلام خطرے میں پڑتا ہے اور مولوی ریاست اور عوام کے گلے پڑ جاتا ہے

“ ہم حرام کی کمائی سے حلال گوشت ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں “ ایک فلم میں یہ ڈائیلاگ نصیرالدین شاہ نے بولا تھا۔

ہمارا مولوی بھی کچھ ایسی ہی گنگائیں بہا رہا ہے۔۔حرام کی زمین  پر حلال کی برکت کے وعظ سنا رہا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ زمین اگرچہ ناجائز ہے لیکن کام تو جائز ہو رہا ہے۔

میرا ایک دوست  اکثر کہتا تھا کہ “ مرغا اگر چوری کر کے ذبح کیا جائے تو ختم پڑھ کر کھا لینے سے وہ حلال ہو جاتا ہے “

یہی مولویانہ منطق ہے، زمین اگرچہ ناجائز ہو لیکن مسجد بنا لینے سے جائز ہو جاتی ہے۔

ہمارے ہاں تجاوزات پر قبضہ اور پھر اس قبضہ کو اپنا حق سمجھنا معمول کا وطیرہ ہے ۔ریاست کی خاموشی یا غفلت ، انتظامیہ کی بے توجہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جسے جو جگہ خالی ملتی ہے وہ وہاں اپنا چولہا رکھ کر بیٹھ جاتا ہے۔۔

پھر جب انتظامیہ خبر لینے آتی ہے تو پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے “ جب ہم قبضہ کر رہے تھے تب آپ کدھر تھے؟ “

بھائیو وہ تب جہاں بھی تھے لیکن اب آپ یہاں نہیں ہوں گے، بس یہی تمام کہانی کا خلاصہ ہے۔

مذہبی طبقہ کافی مشتعل نظر آ رہا تھا جیسے ہماری ریاست کا خاصہ توڑ پھوڑ ، مارنا اور اٹھوانا ہے ایسے ہی کچھ طرہ امتیاز مذہبی طبقات کو بھی خدا نے نصیب کئے ہیں

متشدد رویے، مشتعل ہجوم ، سخت بیانات اور ایسا بہت کچھ ہے جسے وہ غیرت ایمانی کہتے ہیں۔

ابھی کہہ رہے ہیں کہ وہ فلاں پلازہ ، فلاں بلڈنگ، فلاں ٹاؤن وہ بھی غیر قانونی جگہ ہے۔۔

حکومت کو وہ نظر کیوں نہیں آ رہے؟

حضرت اگر پورا ملک بھی غیر قانونی جگہ پر ہو تو پھر بھی آپ کا قبضہ درست نہیں مانا جا سکتا

قبضہ تو قبضہ ہے وہ ٹھیکیدار رشید کرے، جنرل فلاں کرے یا مولوی امام دین کرے۔۔خیر ریاست بھی اگر ایسی بدمعاشی کرے تو وہ بھی قبضہ ہی کہلائے گا۔

مسجد صرف مسجد نہیں ہے وہ ایک دوکان بھی ہے، آماجگاہ بھی ہے ، بہت بار سہولت کار بھی ہوتی ہے اور چند بھوکے پیٹوں کا چولہا بھی۔۔ان سب کے ساتھ ساتھ وہ عوامی جذبات کا محور بھی ہے

بہرحال یہ ریاست گناہگار ضرور ہے جو قبضہ مافیا کو تب نہیں روکتی جب وہ قبضہ جما رہے ہوتے ہیں

خالی پڑی جگہ اچانک مسجد میں بدل جاتی ہے، چھ ماہ پہلے وہ پارک ہوتا ہے اور چھ ماہ بعد وہاں ڈیڑھ اینٹ کی نہیں بلکہ اڑھائی اینٹ کی ایک مسجد کھڑی ہو چکی ہوتی ہے

اور یہ سب ہوتے ہوئے انتظامیہ کی خاموشی یقینا مجرمانہ ہے۔۔

لیکن وہ جتھے جو قرآن کے سائے میں قبضہ جما رہے ہوتے ہیں ان کا یہ مکروہ فعل دنیا اور آخرت دونوں عدالتوں کے لیے ہی ناقابل معافی ٹھہرے گا۔

صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بٌھولا نہیں کہتے، ہمارے بڑے کچھ ایسا ہی کہا کرتے تھے۔۔

لیکن حقیقت اس سے بھی مختلف ہے، صبح کا بھولا اگر دوپہر کو بھی گھر آ جائے تو اسے بھولا ہی سمجھا جائے گا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کے لئے گھر کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے۔۔

مانتے ہیں کہ انتظامیہ تب سو رہی تھی لیکن آپ تو جاگ رہے تھے نا۔۔

آپ حرام جانور پر تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے کیوں بیٹھ گئے؟

یہ ریاستی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کی ضروریات کا خیال کرے، اور ایک فرد کی ضروریات میں مذہبی ضرورت بھی شامل ہے ۔۔

لیکن ریاست کی مصروفیات کچھ اور ہیں اور توجہ کے مراکز بھی۔

اس معاملہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا۔۔

ان ڈھیر سارے پہلوؤں میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ محلے کے آخری کونے میں رہنے والا ساٹھ سال کا بوڑھا جو اس بات سے بے خبر ہے کہ خانہ خدا حرام کی زمین پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔۔

جس مسجد میں وہ اٹھارہ سال اپنے خدا کو پوجتا رہا اچانک اس کے سامنے اس مسجد کو گرا دیا جائے تو یہ اس کے لئے بہت بڑا جذباتی دھچکا ہو گا۔۔

پجاری میں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے خدا کو متروک ہوتا یا معبد کو گرتا ہوا دیکھ سکے۔۔

میں نہ ریاست کا طرف دار ہوں اور نہ مولوی مافیا کا حمایتی

میں اس باریش کانپتے ہوئے بزرگ کے ساتھ کھڑا ہوں جس کے جذباتی دھچکہ کے مجرم نہ صرف وہ ہیں جنہوں نے مسجد گرائی، بلکہ وہ بھی ہیں جنہوں نے مسجد تعمیر کی تھی۔

کالم: عامر شہزاد

مورخہ: 12 اگست، 2025۔

 

 

Author

Related Articles

Back to top button