بلاگ

کلاؤڈ برسٹ کے پیچھے کیا سازش ہے ؟ / ماریہ عبدالحق

 

کلاؤڈ برسٹ ایک ایسا مظہر ہے جو سنتے ہی خوف اور بے بسی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب بادل کسی انتباہ یا وارننگ کے بغیر اچانک برس پڑتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں آسمان کا سارا پانی زمین پر انڈیل دیتے ہیں۔ عام بارش اور کلاؤڈ برسٹ میں یہی بنیادی فرق ہے کہ بارش آہستہ آہستہ اور وقفے وقفے سے برستی ہے، جبکہ کلاؤڈ برسٹ میں چند منٹوں کے اندر اتنی بارش ہو جاتی ہے جتنی کبھی کبھی پورے دن میں بھی نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پانی کا تیز ریلہ پہاڑوں سے بہہ نکلتا ہے، ندی نالے ابل پڑتے ہیں، راستے بند ہو جاتے ہیں، کھیت اجڑ جاتے ہیں اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹنے لگتی ہیں۔

یہ منظر کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہا۔ دنیا کے کئی ممالک میں کلاؤڈ برسٹ کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کا نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے، آبادی کا پھیلاؤ بے ہنگم ہے اور حکومتی ادارے بروقت اقدامات کرنے کی صلاحیت یا سنجیدگی نہیں دکھاتے۔ جب بھی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو چند روز میڈیا پر شور مچتا ہے، کچھ دعوے کیے جاتے ہیں اور پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگلا سانحہ دوبارہ دروازے پر دستک دے دیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کلاؤڈ برسٹ واقعی محض ایک قدرتی آفت ہے یا اس کے پیچھے کوئی "سازش” بھی چھپی ہے؟ اگر ہم اس لفظ "سازش” کو وسیع تر معنوں میں لیں تو جواب ہاں میں ہے۔ یہ سازش فطرت نے نہیں بلکہ ہم انسانوں نے خود اپنے خلاف رچائی ہے۔ جب ہم پہاڑوں کے دامن میں، دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے اپنی بستیاں آباد کرتے ہیں، جب ہم قدرتی پانی کے راستے مسدود کرتے ہیں، جب ہم بے دریغ درختوں کی کٹائی کرتے ہیں اور زمین کو سبزے سے محروم کرتے ہیں تو پھر بارش کے قطروں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ طوفان کی صورت اختیار کر لیں۔ یوں یہ آفت بظاہر آسمان سے اترتی ہے مگر حقیقت میں زمین پر ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں ہر سال برسات کے موسم میں تباہی کا منظر دہرایا جاتا ہے۔ شمالی علاقوں سے لے کر بلوچستان تک، کہیں پہاڑی نالے بپھر جاتے ہیں تو کہیں دریا کنارے بستیاں ڈوب جاتی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ خطرناک صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں پانی اچانک نازل ہو اور گاؤں کے گاؤں بہا لے جائے۔ المیہ یہ ہے کہ حکومتی ادارے اور عوام دونوں جانتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ غیر منصوبہ بند آبادی ہے، مگر پھر بھی ندی نالوں کے دہانوں پر گھروں اور چشتاں کی تعمیر جاری رہتی ہے۔ کوئی قانون اس پر قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عوام اپنی ضد چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب پانی کا ریلہ آتا ہے تو سب سے پہلے انہی کمزور اور خطرناک جگہوں پر بسنے والے لوگ نشانہ بنتے ہیں۔

کلاؤڈ برسٹ سے بچاؤ کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جدید سسٹمز استعمال کیے جاتے ہیں۔ موسمیاتی ریڈار، سیٹلائٹ ڈیٹا اور بروقت الرٹ کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچنے میں مدد دی جاتی ہے۔ وہاں حکومتیں نہ صرف عوام کو آگاہ کرتی ہیں بلکہ قوانین کے نفاذ میں بھی سختی دکھاتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ نظام یا تو موجود ہی نہیں یا پھر کاغذوں تک محدود ہے۔ دیہاتی علاقوں میں رہنے والے عام لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ کلاؤڈ برسٹ کیا ہے۔ ان کے لیے بارش محض بارش ہے، جب تک کہ اچانک پانی کا ریلہ ان کے گھروں کو نہ بہا لے جائے۔ یہ لاعلمی اور بے خبری دراصل سب سے بڑی کمزوری ہے۔

حفاظتی بند باندھنا، برساتی پانی کے لیے محفوظ راستے بنانا، اور پہاڑی علاقوں میں ڈرینج سسٹم قائم کرنا وہ اقدامات ہیں جن سے اس آفت کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جنگلات کی حفاظت اور نئے درخت لگانا بھی نہایت اہم ہے۔ جب پہاڑ سبز رہتے ہیں تو بارش کا پانی زمین میں جذب ہو کر آہستہ آہستہ ندی نالوں میں اترتا ہے، لیکن جب پہاڑ ننگے کر دیے جائیں تو پانی سیدھا نیچے کی طرف لپکتا ہے اور اپنی شدت سے ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں سبزہ دن بدن ختم ہو رہا ہے۔ لکڑیاں بیچنے کے لیے، تعمیرات کے لیے یا محض زمین صاف کرنے کے شوق میں درختوں کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے۔ یوں ایک طرف ہم خود اپنی زمین کو ننگا کرتے ہیں اور دوسری طرف شکایت کرتے ہیں کہ بارشیں ہمیں تباہ کر دیتی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں آبادی کا پھیلاؤ قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ لوگ جہاں جگہ ملی گھر بنا لیتے ہیں، چاہے وہ جگہ ندی کے کنارے ہو یا برساتی پانی کے قدرتی راستے میں۔ حکومت اس پر پابندی عائد نہیں کرتی اور اگر کبھی کرتی بھی ہے تو سیاسی دباؤ یا ذاتی مفاد کے باعث اس پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ یہی وہ "سازش” ہے جس نے کلاؤڈ برسٹ کو زیادہ مہلک بنا دیا ہے۔ ایک طرف عوام کی لاپرواہی اور ضد، دوسری طرف حکمرانوں کی بے حسی اور مفاد پرستی — یہ سب مل کر ایسی سازش بنتے ہیں جو ہر سال سینکڑوں زندگیاں نگل لیتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں۔ اگر آج بھی ہم نے اپنی زمین کے ساتھ یہ بے احتیاطی جاری رکھی تو آنے والے برسوں میں کلاؤڈ برسٹ اور زیادہ شدت اختیار کرے گا۔ یہ محض موسمی مسئلہ نہیں بلکہ قومی بقا کا سوال ہے۔ ہمیں اپنے شہروں اور دیہات کی غیر منصوبہ بند تعمیرات کو روکنا ہوگا، درخت لگانے ہوں گے، ندی نالوں کے راستے کھولنے ہوں گے اور موسمیاتی نگرانی کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔ یہ سب کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

کلاؤڈ برسٹ کے پیچھے اصل سازش یہی ہے کہ ہم نے فطرت کو چیلنج کیا ہے اور زمین کو اس کی اصل حالت سے محروم کیا ہے۔ فطرت انتقام نہیں لیتی لیکن اپنا توازن ضرور قائم کرتی ہے، اور جب یہ توازن بگڑتا ہے تو نتیجہ طوفان، سیلاب اور تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ یہ آفت دراصل ہماری اپنی پیدا کردہ ہے۔ اگر آج ہم نے اس سے سبق نہ سیکھا تو کل ہماری آئندہ نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ ہم نے ان کے لیے کیسا پاکستان چھوڑا؟ وہ پاکستان جہاں بادل برستے نہیں، پھٹتے ہیں، اور پانی زندگی دینے کے بجائے موت کا پیغام بن کر آتا ہے۔

 

Author

Related Articles

Back to top button