
کتاب پڑھتے ہوئے بھی میرا دھیان موبائیل فون کی طرف تھا مجھے اسد کے فون کا انتظار تھا فون کی گھنٹی بجی نمبر دیکھے بغیر جلدی میں کال رسیو کی تو دوسری طرف سے کسی عورت نے کہا میں فوزیہ بول رہی ہوں کیا تم صبیحہ ہو؟ نم آنکھوں اور گلوگیر لہجے میں بڑی مشکل سے میں نے ہاں کہا ۔
فوزیہ سے تیس سال بعد بات ہورہی تھی اور اس نے آج فون کرکے دعوت کا بتایا جس کا اہتمام اس نے کیا, مجھے یہ جان کر بہت خوشی بھی ہوئی کہ اس نے بھلایا نہیں خالدہ اور اسماء کو بھی اطلاع وہ دےچکی تھی ۔۔
فون بند ہوا تو میرے زہن پر ماضی کے منظر حاوی ہوچکے تھے ۔
فوزیہ, خالدہ, اسماء اور میں بہت پکی سہیلیاں تھیں کالج میں ہم اکٹھی بیٹھتیں اور ایک دوسرے کی ہر بات کی رازدار تھیں ۔
کالج سے فراغت کے بعد جب ہم آخری بار اکٹھی چاروں ملیں تھیں تو سب نے اپنے اپنے منصوبے بتائے کہ آگے کیا کرنا ہے ۔
فوزیہ نے بتایا کہ اس کے والدین اسے لاہور میں ایک بڑی یونیورسٹی میں داخل کروانے کا کہہ رہے ہیں ۔
باقی ہم تینوں کے والدین یہ سب نہیں کرسکتے تھے
خالدہ نے صاف صاف ہی بتادیا کہ اس کا داخلہ اس کی خالہ کے ہاں ہورہا ہے جہاں اسے ایک شاگرد ملے گا ۔۔۔
میں نے یہ کہہ کر کہ میں والدین سے دور نہیں رہ سکتی اسی شہر میں ممکن ہوا تو پڑھائی جاری رکھوں گی ۔
جبکہ اسماء نے اپنی کالونی میں پرائیویٹ ٹیوشن سنٹر کھول لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر میں نے ہلکی سی خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی لاہور یونیورسٹی میں پڑھنا ہے جہاں فوزیہ کا داخلہ ہوا ہے تو میری امی نے کہا کہ تیرا باپ یونیورسٹی اور ہاسٹل کے اخراجات نہیں اٹھاسکتا ۔
تب پہلی بار ایسا ہوا کہ مجھے فوزیہ کی زندگی پر رشک آیا اور اس کے والدین کی تعریف کرنے لگی ,
میری ماں مجھے دیکھ کر مسکرائی اور کہنے لگی تمہیں جہاں داخلہ دلوایا جائے گا وہ بھی بہت اچھی جگہ ہوگی ۔ مجھے اپنے والدین کی اس بےبسی پر بہت گھٹن محسوس ہوتی اور جی ہی جی میں خود کو بڑے بنگلوں اور گاڑیوں میں دیکھتی اور چاہتی کے میں والدین کی طرح کم وسائل میں زندگی کو رینگنے کےبجائے بھرپور انداز میں جیوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دوران خالدہ اور اسماء اپنے اپنے گھر کی ہوگئیں ان کی شادیوں میں شرکت بھی کی اور فوزیہ کے شامل نہ ہونے پر اسے کبھی مغرور تو کبھی بہت خوش قسمت سمجھتے کہ وہ جہاں پڑھ اور رھ رہی ہے ہم صرف وہاں خوابوں میں ہی جاسکتے ہیں ۔۔۔
میرے امی ابو مجھے بہت محبت و شفقت سے سمجھاتے رہتے اور پھر ایک دن میری بھی سلیم سے شادی کردی ۔
سلیم سے شادی کرکے مجھے لگتا تھا کہ یہ میرا خواب نہیں یہ میرا مستقبل نہیں مجھے تو فوزیہ کی طرح بننا تھا مجھے اپنے والدین پر بہت غصہ آتا
جب اسد پیدا ہوا تو یکایک زندگی کا رخ بدل گیا اب تمام تر خواہشات و ترجیحات اسد کےلیے ہوگئیں زندگی میں یہ ایک خوشی کا جھونکا تھا۔
زندگی کا لطف ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ سلیم ایک دن کسی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے جہاں کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے آپسی کسی مخالفت میں ہونے والے فساد کے سبب جلاؤ گھیراؤ کے نتیجے میں میرا بچہ اسد جس نے ابھی ابو کہنا بھی نہیں سیکھا تھا باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا ۔
میری زندگی بےرنگ و بےنور ہوچکی تھی چیخیں مارنے کو دل چاہتا تھا کبھی زمانے سے بدلہ لینے کو جی کرتا مگر اسد کا کھلکھلاتا چہرہ میرے اندر جل رہی آگ پر پانی کا سا کام کرتا , آہستہ آہستہ زندگی بسر ہورہی تھی,
میں نے تمام وہ لوگ چھوڑ دیے جن لوگوں کی نظر میں اسد کا وجود میرے لیے گرہن تھا,
ماں باپ بھی شاید میرے لیے کچھ نہ کرسکنے کا دکھ دل میں سمائے عالمِ بقاء کی طرف منتقل ہوگئے ۔۔
ایک نوکیلی چٹان پر ننگے پاؤں چل کر اسد کو بچپن سے جوانی تک میں لے ہی آئی ۔
اسد ماشاءاللہ اب ایف اے کرچکا ہے اور دوستوں کےساتھ مری میں سیر کےلیے گیا ہوا تھا جہاں برفباری کے سبب کچھ مسافروں کے پھنسنے اور جان بحق ہونے کی خبروں سے تشویش میں تھی اور اسد کا نمبر بند جارہاتھا اسی کے فون کی منتظر تھی جب فوزیہ کی کال آگئی ۔
جب تک مجھے اسد کی طرف سے خبر نہ مل جائے چین کہاں آنے والا تھا رات گئے آخر اسد نے فون کرکے بتایا کہ وہ خیریت سے ہے ۔ وہ اور اس کے دوست واپس آرہے ہیں صبح تک پہنچ جائیں گے۔
اگلے ہفتے فوزیہ کے دیے گئے پتے پر میں پہنچ چکی تھی
جہاں ایک خوبصورت بنگلے میں فوزیہ کو منتظر پایا
کچھ وقفے کے بعد خالدہ اور پھر اسماء بھی پہنچ گئیں
تیس سال بعد ہم چاروں ایک ساتھ اپنے آبائی شہر میں اکٹھی ہوئیں تھی ۔
وقت نے ہمارے خدوخال ہی نہیں بدلے زہنی بلوغت بھی بدل دی تھی ۔ مشترک تھی صرف یہی بات کہ ہم آج بھی سہیلیاں ہیں ۔
فوزیہ اسماء اور میں نے بیک زبان ہوکر خالدہ سے پوچھا کہ ہاں بھئی تمہارا شاگرد کیسا ہے ۔
خالدہ بہت ہنسی اور کہنے لگی وہ بہت اچھے ہیں
میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے جس طرح میرا ساتھ نبھایا وہ بہترین استاد ہیں ۔
اسماء بھی بہت خوش تھی اس نے بھی بھرپور زندگی جی تھی ۔
میں نے بھی انہیں اپنے متعلق بتایا اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی جسے دیکھ کر سب نے اس کی بالائیں لیں ۔
ہم منتظر تھے کہ فوزیہ کے متعلق معلومات ملے وہ اب کچھ بتائے ۔
فوزیہ نے جب خود کےمتعلق بتایا تو ہم تینوں بہت چونک گئیں ۔
فوزیہ کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں وہ بلک بلک کر بول رہی تھی کہ آج میں تم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوئی ہوں ۔
والدین نے میری حثیت و مرتبہ بنانے کےلیے سونے کی اینٹوں سے میرا گھر بنانا چاہا مجھے اتنا پڑھایا کہ میں پڑھتے پڑھتے جوانی کی دہلیز پار گئی ۔
میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھی پرکشش سہولیات اچھی تنخواہ لیکن ویران زندگی ۔
جو بھی رشتہ تعلق ملا اسے میرے عہدے اور کمائی سے محبت تھی ۔ مجھ سے کسی کو نہیں اور اس کے ذمہ دار میں تو اپنے والدین کو سمجھتی ہوں ۔ کہ اب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کھرے رشتوں کی حسرت میں جل رہی ہوں ۔ تم تینوں کتنی امیر ہو کہ جنہیں حقیقی چاہتیں اور سچے کھرے رشتے ملے ہیں ۔
پالنے والے اصل رب پر یقین کے بجائے خود کچھ بننے کچھ کرنے کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے غلط سبق نے مجھ سے میری نزاکت بھی چھین لی ۔
میری زندگی بظاہر کچھ اور جبکہ سچ میں اندر سے کچی اینٹ ہوں ۔۔۔





شبیر علوی صاحب کا قلم معاشرے کی تلخ سچائیوں کو بیان کرتا ہے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ انسان بہت مادہ پرست ہوگیا ہے۔
سچی خوشی سے ے دو ر ہوتے جارہے ہم۔