جشن/ ثمرین مسکین

ماحول میں سوگواریت رچی بسی ہوئی تھی۔رات نے ہر طرف سیاہ آنچل پھیلادیا تھا۔آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے،میں اس آسمان کی وسعتوں میں کوئی گم شدہ ستارا ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا۔
نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
میں علی اکبر آرام کرسی پر بیٹھا ماضی اور حال کا موازنہ کررہا تھا۔
اتنی لمبی مسافت طے کرنے کے بعد تھکان ابھی باقی تھی۔
میری آنکھوں کی پتلیاں بار بار بھیگ رہی تھیں۔
کپکپاتے ہاتھوں سے بھیگی پتلیوں کو صاف کرتا میں دکھ کے ہنڈولے میں جھول رہا تھا۔
آرام کرسی پر جھولتے میں نے دیوار گیر گھڑی کو بغور دیکھا
دیوار پر ٹنگی گھڑی کی ٹک ٹک ماحول کو اور بھی سوگوار بنا رہی تھی۔
گھڑی کی سوئیاں بارہ کے ہندسے پرایک دوسرے سے گلے ملنے کو بےتاب تھیں۔
سوئیوں کی بڑھتی رفتار مجھے گہری کھائی میں دھکیلنے کےلیے کوشاں تھی۔میں نے گھڑی سے نظریں ہٹائیں،اور اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنے کےلیے کرسی سےاٹھا آہستہ اور لڑکھڑاتے قدموں سے چلتےہوئےالماری کی طرف بڑھا۔
الماری کا پٹ وا کرتے ہوئے میرے ہاتھوں کی لرزش بھی بڑھنے لگی تھی۔
میں نے بھرپور کوشش کرتے ہوئے الماری کو کھولا اور اس کے ایک کونے سے زنگ آلود صندوقچہ نکالا،میں نے سہمی ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا کوئی ہے تو نہیں،اس کمرے میں کوئی نہیں آسکتا تھا پھر بھی میں نے اطراف میں نظر دوڑائی۔
ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی تھی،دل کی دھڑکن بےترتیب ہوتی جا رہی تھی اور آنکھوں سے سیال مادہ بہہ کر میرے کے دامن میں جذب ہورہا تھا۔
میں لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا واپس آرام کرسی تک بمشکل پہنچا تھا۔
کچھ دیر بغور جائزہ لینے کے بعد میں نےاپنی ہمت کو مجتمع کرتے ہوئے صندوقچے کو بڑی عقیدت سے کھولا تھا۔
اس صندوقچے میں کئی سال پرانی یادیں مقفل تھیں۔
ان یادوں کےمقفل کو کھولتے ہوئے میرا دل ایک عجیب لے میں دھڑکا تھا۔
مجھے ایسے لگا جیسے اس صندوقچے کے کھلتے ہی ہر طرف خوشبو پھیل گئی ہو،اس میں مقید ایک ایک چیز اپنے ہونے کا پتا دے رہی ہو۔
مجھے لگا کہ قطار در قطار پڑی چیزوں سے آوازیں بلند ہورہی ہوں اور ہر ایک نے مجھے گلے لگا کر میرے کانوں میں سرگوشی کی ہو۔
میں نے چند لمحوں کے توقف کیا خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
ایک کے بعد ایک آواز ابھرنے لگی۔
علی!ایک جانی پہچانی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
لالا!ایک مانوس آواز نے مجھے جکڑا تھا۔
اوئے جگر!ایک شرارتی انداز نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیاتھا،شرارتوں بھرا ایک خوبصورت جہاں تھا ہم دونوں کا،وہ سب سوچ کر
میں بھیگی آنکھوں سے مسکرا دیا۔
چھوٹے بھیا! کی صدا لگاتی وہ مجھے گول گھماتی کھلکھلا رہی تھی۔مجھے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اس ننھی پری نے اپنے سنگ مجھے گول گول گھما دیا ہو۔
میں نے اسی لمحے کو محسوس کرتے ہوئے فوراً آنکھیں کھول دی تھیں۔
میں ڈبڈبائی آنکھوں کو صاف کرتا اس کش مکش میں تھا کہ میں اس یادوں کی پٹاری کو کھول کر اس میں غوطہ زن ہوتا رہوں یا پھر خاموشی سے اس کو دوبارہ مقفل کرکے رکھ دوں کہ کہیں کسی گوشے سے کوئی آواز میرے کانوں میں نہ پڑے۔
کوئی یاد میرے سینے سے لپٹ کر نوحہ کناں نہ ہوسکے۔
میں ان سب آوازوں اور یادوں کو سینے سے لگائے رکھنا بھی چاہتا تھا اور فرار کی راہ بھی اختیار کرنا چاہتا تھا۔
میں ان پیاروں کو بتانا چاہتا تھا کہ آج بھی رانی کے،لالا !کی آواز سننے کا میں منتظر ہوں۔
اوئے جگر!کی صدا کو ترس گیا ہوں اور اس شرارتی لڑکے کے ساتھ شرارت کرکے دور تک قہقوں کے سنگ بھاگنا چاہتا ہوں۔
چھوٹے بھیا! کہنے والی کےساتھ میں گول گول گھوم جانے کو بےتاب ہوں۔میں اس ننھی پری کےلاڈ اٹھانا چاہتا ہوں۔
آخر کار میں
صندوقچے میں سے اچھلتی کودتی باہر آنے کو مچلتی یادوں کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
۔۔
مجھے یاد ہے جب میں ستتر سال پہلے بچتا بچاتا اپنے پیاروں کے سنگ ارض پاکستان پر قدم رکھنے کےلیے گھر سے نکلا تھا۔
میرے ننھے ذہن نے ان لمحات کو کیسے اپنی یاداشت کے پنوں میں قید کرلیا تھا کہ ان سب دل دہلا دینے والے واقعات اور ان کی قید سےمیں آج تک رہائی نہ پاسکا،وہ لمحات مجھے ہر وقت سولی پر ٹنگے رکھتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے،
رانی کو دشمن کے ناپاک پنجوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دن کے اجالے میں ابا نے اسے کنوئیں کے کھلے منہ میں پناہ کی غرض سے ڈال دیا تھا کہ وہ وہاں پرسکون رہ سکے۔
چھوٹی کو درندوں کی درندگی سے بچانے کےلیے زہر کا پیالا گھونٹ گھونٹ پلاتا،ابا چیخ پڑا تھا۔
میرے جگر!کہنے والا ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح بکھرتا چلا گیاتھا۔
ابا!ہاں وہ ابا جو کہتا تھا علی اکبر تو بہت ناکارہ ہے میں تجھے ایک دن گھر سے نکال باہر کروں گا۔
اور آج وہ واقعی مجھے گھر سے نکال لایا تھا۔
میں نے ابا کو اپنے سامنے ڈھال بنتے دیکھا تھا،نہ جانے وہ کیا تھا جو ہوا کے سنگ اڑتا چلا آرہا تھا اور ابا نے مجھے دھکا دے کر دور ہوا میں اچھالا تھا میں گیند کی طرح اچھلتا دور جاگرا تھا لیکن وہ جو اڑتا ہوا کچھ آیا تھا ابا کے سینے میں پیوست ہوگیاتھا۔ابا خون میں لت پت تھا۔
آخری الفاظ جو ابا کی زبان سے ادا ہوئے تھے وہ میں بمشکل ہی سن پایا تھا،ابا سانسوں کی ٹوٹتی ڈور کے ساتھ پورا زور لگا کر مجھے کہہ رہا تھا۔
بھاگ جا علی اکبر بھاگ جا۔۔
اور اس آواز کے دم توڑتے ہی مجھے لگا تھا ہر چیز ساکت ہوگئی ہے۔میں نے ارد گرد دیکھا کوئی شناسا چہرا جس کے دامن کو میں پکڑ سکوں،یا کسی کے گلے سے لگ کر پوچھ سکوں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
وہاں کوئی نہیں تھا
ہر طرف خون ہی خون تھا،خون کی بہتی ندیوں کو دیکھ کر میں سہم گیا تھا۔
میں ایک جانب دبکا بیٹھا تھا کہ مجھے کسی چیز کی آواز سنائی دی۔
وہ کس چیز کی آواز تھی مجھے معلوم نہ ہوسکا۔
شاید وہ شور تھا۔خاموشی کا شور، خاموشی کا یہ شور فضا کا سینہ چیر دینے کےلیے کافی تھا۔
میں اس سب سے ڈر کر بھاگنے کےلیے ہمت جمع کررہا تھا،ادھر ادھر پتھرائی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ مجھے
ابا کے قریب پڑی ایک پوٹلی نظر آئی نہ جانے کیا سوچ کر میں نے وہ پوٹلی اٹھائی اور ابا کا کہا مانتے ہوئے دوڑ لگا دی تھی۔اس لمحے مجھے کسی چیز کا ڈر اور خوف نہ تھا بس ایک آواز گونج رہی تھی
بھاگ جا علی اکبر بھاگ جا۔
میرے پاؤں بہت بھاری ہورہے تھے میں پیچھے مڑ کر بار بار دیکھ رہا تھا۔
میں اماں کو ڈھونڈ رہا تھا نہ جانے اماں مجھے چھوڑ کر کہاں چلی گئی تھی۔
میرے قدموں کی رفتار بڑھتی چلی جا رہی تھی،بلاآخرمیں ہانپتے کانپتے ٹرین میں بیٹھ کر پاک وطن کی معطر فضاؤں میں پناہ لےچکا تھا۔اس دھرتی پر جو بانہیں وا کیے ہمیں اپنے سینے میں پناہ دینے کےلیے مسکرا رہی تھی۔
جب محفوظ جگہ پر پہنچا تو میں نے سب سے پہلے اس پوٹلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں کسی کی بالی،کسی کی چنری،کسی کی چوڑی اور کسی کا رومال بندھا تھا۔
ایک گہرے پیلے ہوتے صفحے پر آدھے ادھورے لفظ لکھے تھے۔
ہجرت کا سفر،پاک سر زمین کی طرف سفر۔
اور پھر میں نے اس پوٹلی کو ازحد قیمتی سرمایہ سمجھ کر ایک صندوقچے میں محفوظ کرلیاتھا۔
۔۔
میں نے یادوں کی اس پٹاری کو بند کرتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا تھا۔
سوئیاں بارہ کے ہندسے پر پہنچنے کےلیے تگ و دو کر رہی تھیں۔
گھڑی نے بارہ کے ہندسے پر اپنا تسلط جمایا ہی تھا کہ پورا شہر اندھیرے کے سینے کو چیرتا ہوا روشنیوں میں نہا گیا۔۔
باجے،سیٹیاں،تالیاں،پٹاخے اور ہلڑ بازی کی آوازیں بڑھنے لگی تھیں۔جشن آزادی مبارک کی آواز سے دھرتی جھوم رہی تھی۔
ہر طرف شور ہی شور تھا فضا نغموں سے گونج رہی تھی۔
میں نے کھڑکیوں کے پردے گرادیے تھے باہر کا شور کھڑکیاں دروازے توڑنے کےلیے پر تول رہا تھا۔میں نے بے اختیار کانوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔
ایک آہ!نے یادوں کا گلا گھونٹا تھا اور علی اکبر تن تنہا کمرے میں بیٹھا آہستہ سے بڑبڑایا تھا۔
یہ ہے پاکستان
پاک لوگوں کی رہنے کی جگہ۔
بے ہنگم بڑھتے شور نے مجھے میری گود میں رکھے صندوقچے سے نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا اور
میری گود میں دھرا صندوقچہ اپنے وجود کا جشن منا رہا تھا۔




