نظم : منقلب / شاعرہ : قرۃالعین شعیب

منقلب
قرۃالعین شعیب
رازداری سے
دروازوں کے پیچھے
بند کمروں میں
شیطانی قہقہے گونجتے ہیں
دیکھنے والی آنکھ
خوش گمانی میں مبتلا ہے
وہ چھری کو پھول
مکاری کو محبت
عیاری کو خلوص
چالاکی کو وفا
اور جھوٹ کو سچ جان کر
جعل سازوں کو
بڑے عہدوں سے نواز دیتی ہے
سننے والے کان سب سچ سن لیتے ہیں
دیکھنے والے مکمل دیکھ لیتے ہیں
پرکھنے والے سارا پرکھ لیتے ہیں
لیکن جسے دیکھنا چاہیے
وہ آنکھ مصلحتاً بند ہے
لوگ پکارتے ہیں
دہائی ہے
وہ کان لپیٹ لیتے ہیں
جہاں بولنا چاہیے
وہاں لب سی لیتے ہیں
لیکن گلی کوچوں میں
ہجوم اکھٹے کرتے ہیں
اور نعرے لگواتے ہیں
لیکن ان کے اپنے قلب نہیں پلٹتے
فیصلے مصلحتوں کی نذر ہیں
دیکھنے والی آنکھ کھلتی ہے
اخلاص سے بھرے دلوں کو نہیں دیکھتی ہے
نعروں اور ہجوم کے شور میں
ضمیر دب جاتا ہے
ہر چھڑی اپنی اپنی بھیڑیں ہانک لیتی ہے
اور بھیڑوں کو
پکڑا دی جاتی ہیں
بیساکھیاں
پہنا دیے جاتے ہیں
مصلحت کے چشمے
بولتی ہیں اپنے اپنے چرواہے کی بولیاں
لیکن ان کے قلب نہیں پلٹتے




