بچوں کا ادب

جمال کے جوتے / کنول بہزاد

” امی ہمارا سکول ٹرپ جا رہا ہے اور اس کے لیے مجھے نئے جوگرز خریدنے ہیں ۔۔۔آج ہی شاپنگ مال چلیں تاکہ میں جوتے خرید سکوں۔۔۔”

احمر نے سکول سے آتے ہی ماں سے فرمائش کی ۔

امی نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا اور بولیں :
” احمر بیٹا ! آپ کے پاس پہلے ہی کافی جوتے موجود ہیں ۔۔۔مزید خریدنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔”

لیکن احمر نے اپنی فرمائش کی تکرار جاری رکھی۔۔۔گذشتہ کچھ عرصے سے احمر کو نئے نئے میچنگ جوتے خریدنے کا جنون سا ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔عید، تہوار ، سالگرہ ، سکول یا گھر کی کوئی تقریب ہوتی تو اسے نئے اور مہنگے برانڈ کا جوتا چاہیے ہوتا تھا ۔۔۔اگرچہ اس کے والدین خاصے خوشحال تھے اور اکلوتے پندرہ سالہ بیٹے کی فرمائشیں آرام سے پوری کر سکتے تھے مگر یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی ۔۔۔احمر کی امی یہ بات اب شدت سے محسوس کر رہی تھیں کہاس بےجا اصراف کو روکنا ضروری ہے ۔۔۔احمر کے والد کا اپنا کاروبار تھا اور وہ بےحد مصروف رہتے تھے ۔۔۔اس حوالے سے احمر کی امی کی ان سے ابھی تک بات نہیں ہو پائی تھی ۔۔۔

چھٹی کا دن تھا ۔آج اتفاق سے سب گھر میں اکٹھے تھے۔۔۔ناشتے کے بعد احمر بیٹ اٹھا کر دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے نکلنے لگا تو اس کے ابو نے بےساختہ کہا :

” ارے بھئی ۔۔۔آپ کے جوگرز تو زبردست ہیں ۔۔۔کب خریدے۔۔۔؟ ”
” اب تو کافی دن ہو گئے ابو۔۔۔”
احمر نے لاپروائی سے جواب دیا ۔۔۔

"اچھا لگ تو بالکل نئے رہے ہیں ۔۔۔”
ابو بولے۔۔۔
اس دوران احمر باہر چلا گیا تو احمر کی امی فکر مندی سے بولیں:

” اس لڑکے نے مجھے کافی پریشان کر رکھا ہے ۔۔۔اس کے کمرے میں جاکر دیکھیں ، شو ریک بھرا پڑا ہے جوتوں سے پھر بھی اسے آئے روز نیا جوتا چاہیے ۔۔۔”

” یہ تو واقعی اچھی بات نہیں ۔۔۔آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔۔۔؟”
احمر کے ابو نے پوچھا ۔۔۔

” آپ دن رات اتنی محنت کرتے ہیں ، مصروف رہتے ہیں اس لیے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔”
امی نے جواب دیا ۔۔۔
اسی رات احمر کمرے میں سونے کے لیے گیا تو اس کے ابو بھی وہیں چلے گئے ۔۔۔دو چار ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ بولے۔۔۔
” احمر بیٹا! کیا آج مجھ سے ایک سچی کہانی سننا چاہو گے ؟ ”

” جی ابو ! ضرور ۔۔۔” وہ اشتیاق سے بولا ۔۔۔
وہ احمر کے ساتھ ہی اس کے بستر میں بیٹھ گئے ۔۔۔اور یوں گویا ہوئے :

” پاکستان کے صحرائی علاقے چولستان میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔۔۔جس میں ایک لڑکا جمال اپنی ماں کے ساتھ سرکنڈوں سے بنی جھونپڑی میں رہتا تھا ۔۔۔اس کے والد وفات پا چکے تھے ۔۔۔دونوں ماں بیٹا بڑی مشکل سے گزر بسر کرتے تھے ۔۔۔اس کی ماں سارا دن کسی کی بکریاں چراتی تھی۔۔۔جس کے بدلے انہیں تھوڑے سے پیسے اور بکریوں کے دودھ کا گلاس ڈیڑھ گلاس مل جاتا تھا ۔۔۔جمال کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔۔۔ماں نے اس کا شوق دیکھتے ہوئے اسے سکول میں داخل تو کروا دیا مگر فیس، یونیفارم ، کتابوں اور کاپیوں کا خرچ کافی تھا ۔۔۔پھر سکول گاؤں سے کافی دور بھی تھا ۔۔۔جمال کو صبح سویرے گھر سے نکلنا پڑتا تاکہ وقت پر سکول پہنچ سکے ۔۔۔سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جمال کے پاس جوتے نہیں تھے۔۔۔اور پیدل سکول جانے کے باعث اس کے پاؤں کانٹوں اور گرم ریت پر چلنے سے زخمی ہو جاتے۔۔۔۔ صبح سویرے سکول جاتے وقت تو ریت ٹھنڈی ہوتی مگر واپسی پر ریت انگاروں کی طرح تپ جاتی۔۔۔جمال اپنا بستہ اٹھا کر بھاگتا چلا جاتا تاکہ جلد گھر پہنچ جائے مگر پیروں کے زخم اسے تیز بھاگنے بھی نہ دیتے ۔۔۔آخر ایک روز اسے ترکیب سوجھی۔۔۔اس نے راستے میں چوڑے پتوں والا ایک صحرائی پودا دیکھا ۔۔۔جمال نے کچھ پتے توڑے اور پاؤں کے تلوؤں کے ساتھ پتلی سی رسی سے باندھ لیے۔۔۔یوں ریت کی تپش سے کافی بچت ہو گئی ۔۔۔اب وہ روز یہی ترکیب آزماتا ۔۔۔ایک روز سکول سے واپسی پر اسے راستے میں جوتے کا ایک پیر مل گیا ۔۔۔شاید کسی مسافر کا غلطی سے گر گیا تھا ۔۔۔جمال اسے پاکر خوشی سے پھولے نہیں سمایا ۔۔۔اس نے داہنے پاؤں میں ڈالا تو تھوڑا سا کھلا تھا مگر جمال کے لیے یہ ہفت اقلیم سے کم نہ تھا ۔۔۔کاش ! اس کا دوسرا پاؤں بھی کہیں پڑا ہوا مل جائے ۔۔۔اس نے حسرت سے سوچا۔۔۔مگر دوسرا پاؤں نہ ملنا تھا ۔۔۔نہ ملا۔۔۔

جمال خوش تھا کہ اس کا ایک پاؤں کانٹوں اور ریت کی تپش سے محفوظ ہو گیا تھا ۔۔۔مگر سکول کے لڑکے اس کے ایک پاؤں میں جوتا دیکھ کر مذاق اڑاتے ۔۔۔ایک روز اس کے استاد ماسٹر نور
محمد نے یہ سب دیکھ لیا ۔۔۔انہوں نے جمال کو پاس بلا کر سارا ماجرا سنا ۔۔۔وہ خود بھی غریب آدمی تھے ۔۔۔جمال کو نیا جوتا تو نہ دلا سکتے تھے مگر اتنا ضرور کیا کہ اپنے گاؤں کے موچی سے دوسرے پاؤں کے لیے جوتا بنوا دیا ۔۔۔جو ہو بہو داہنے پاؤں کے جوتے جیسا تو نہ تھا مگر ملتا جلتا ضرور تھا ۔۔۔جمال اب بہت خوش تھا ۔۔۔اس نے دوتین برس تک مسلسل وہ جوتا پہنا۔۔۔پڑھائی میں اتنی سخت محنت کی کہ اسے حکومت کی طرف سے وظیفہ ملنے لگا ۔۔۔اب زندگی تھوڑی آسان ہو گئی ۔۔۔جمال نے جہد مسلسل سے معاشرے میں آخر کار اپنا مقام بنا لیا ۔۔۔اب جمال خوشحال ہے۔۔۔اس کا اپنا گھر ، کاروبار ہے۔۔۔اب وہ چاہے تو قیمتی سے قیمتی جوتا خرید سکتا ہے ۔۔۔لیکن اسے معلوم ہے کہ وہ کس قدر محنت سے اس مقام تک پہنچا ہے ۔۔۔اس لیے وہ تب ہی نیا جوتا خریدتا ہے جب پرانا استعمال کے قابل نہیں رہتا ۔۔۔وہ اپنے گاؤں اور دوسرے بےشمار غریب بچوں کو نہیں بھولا جو کپڑے، جوتے، خوراک کے لیے ترستے ہیں ۔۔۔جمال نے ایسے بچوں کی مدد کے لیے ایک ادارہ بھی بنا رکھا ہے ۔۔۔

کیا تم اس جمال سے ملنا چاہو گے ؟ ”
ساری کہانی سنا کر ابو نے احمر سے پوچھا ۔۔۔
احمر جو اس دوران دم بخود سا بیٹھا تھا ۔۔۔چونک کر بولا ۔۔۔
” جی ضرور ۔۔۔میں اس عظیم انسان سے ضرور ملنا چاہوں گا ۔۔۔”

"ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں ۔۔۔میرے ساتھ آئیں ۔۔۔”
وہ بولے۔۔۔
احمر ان کے پیچھے چلتے سٹور روم تک آگیا ۔۔۔اس کے ابو نے ایک باکس اٹھا کر کھولا اور بیٹے کے سامنے کر دیا ۔۔۔
جوتوں کا ایک خستہ حال جوڑا اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔جس کے دونوں پاؤں تھوڑے مختلف تھے۔۔۔۔

” یہ جمال کے جوتے ہیں ، جن میں سے ایک راستے میں پڑا ملا تھا اور ایک ماسٹر نور محمد نے موچی سے بنوا کر دیا تھا ۔۔۔”
احمر کے ابو کی آنکھوں میں نمی سی تھی ۔۔۔
احمر بھی شرمندہ سا تھا ۔۔۔اس نے ان کٹے پھٹے جوتوں کو عقیدت سے چھوا۔۔۔ پھر پوچھا ۔۔۔
” میں جمال صاحب سے کب مل سکوں گا ۔۔۔؟

” ابھی ۔۔۔اسی وقت ۔۔۔جمال آپ کے سامنے ہے۔۔۔”
ابو نے اپنی بانہیں پھیلا دیں ۔۔۔

” ابو آپ ۔۔۔مگر۔۔۔آپ کا نام تو۔۔۔”
احمر کچھ کہتے کہتے رک گیا ۔۔۔
"ہاں۔۔۔ سب مجھے جمیل کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔مگر میں جمال ہوں۔۔۔ماں نے میرا یہی نام رکھا تھا ۔۔۔لیکن ماسٹر نور محمد نے میرے سکول کے داخلہ فارم میں غلطی سے جمیل لکھ دیا تو پھر میں نے بدلوایا نہیں ۔۔۔”

جمیل صاحب نے وضاحت کی ۔۔۔

احمر اپنے ابو کی کھلی بانہوں میں سما گیا ۔۔۔اور بولا۔۔۔

” ابو ۔۔۔مجھے معاف کر دیں ۔۔۔مجھے فخر ہے کہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔۔۔آپ نے زندگی میں اتنی جدوجہد کی ، مشکلات جھیلیں اور میں آپ کے محنت سے کمائے گئے پیسوں کو فضول چیزوں میں اڑاتا رہا ۔۔۔میں سمجھ گیا ہوں کہ ہماری دولت پر اور بھی بہت سے لوگوں کا حق ہے ۔۔۔میں بھی آپ کی طرح محنت کرکے معاشرے میں مقام حاصل کروں گا اور انسانیت کی خدمت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لوں گا ۔۔۔”

” میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی میرے بچے ۔۔۔”

ابو نے احمر کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔

Author

Related Articles

Back to top button