
پاکستان میں عمومی طور پر یہ بیانیہ عام ہے کہ ہمارا معاشرہ عورت کو بہت عزت دیتا ہے، یہاں عورت ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں محفوظ ہے۔ مذہبی اور ثقافتی تناظر میں اس عزت کو اکثر ایک مثالی معیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر جب ہم عالمی سطح پر خواتین کی حیثیت سے متعلق اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دعویٰ نہایت کمزور اور بے بنیاد محسوس ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں جاری ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کی جینڈر گیپ انڈیکس 2025 کی رپورٹ اس تضاد کو واضح کرتی ہے۔ اس فہرست میں دنیا کے 148 ممالک کو شامل کیا گیا، جن میں پاکستان 148ویں یعنی سب سے آخری نمبر پر ہے۔ پچھلے سال پاکستان 145ویں نمبر پر تھا۔ اس سال کی درجہ بندی میں تین درجے مزید نیچے جانا نہ صرف لمحۂ فکریہ ہے بلکہ ایک اجتماعی شرمندگی بھی۔
جینڈر گیپ انڈیکس ہے کیا؟ یہ انڈیکس چار بنیادی شعبوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کا جائزہ لیتا ہے: 1. معاشی شرکت اور مواقع 2. تعلیم تک رسائی 3. صحت اور بقاء 4. سیاسی شمولیت۔
بدقسمتی سے پاکستان ان چاروں شعبوں میں انتہائی کمزور کارکردگی کا حامل رہا ہے۔ اس ذیلی اشاریہ (sub-index) میں پاکستان کا اسکور 34.7٪ ہے (بہت کم) خواتین کو معاشی وسائل کا صرف ایک تہائی حصہ ملتا ہے۔
اجرتوں میں عدم مساوات واضح طور پر ظہور پاتی ہے: خواتین وہی کام کرکے مردوں سے تقریباً 18 فیصد کم کماتی ہیں ـ پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 22 فیصد کے لگ بھگ ہے، جبکہ مردوں کی شرح 80 فیصد سے زائد ہے۔ کام کی جگہ پر ہراسانی، تنخواہوں میں عدم مساوات اور محدود مواقع خواتین کے لیے معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
دیہی علاقوں میں اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد مایوس کن حد تک کم ہے۔ کئی لڑکیاں غربت، کم عمری میں شادی، یا والدین کی جانب سے تعلیم کی اہمیت کو نہ سمجھنے کے باعث تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
صحت و بقاء کا مجموعی اسکور 96.1٪ ہے ۔ پاکستان میں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بدستور بلند ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی، تولیدی صحت اور طبی سہولیات تک رسائی میں خواتین کی حالت ابتر ہے۔
سیاسی شراکت میں پاکستان کا اسکور صرف 11.0٪ ہے، جو گزشتہ سال کے 12.2٪ سے کم ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی معمولی حد تک بڑھی ہے (تقریباً 1.2 فیصد پوائنٹس)، لیکن وزیران کے عہدوں میں خواتین کا حصہ 5.9٪ سے 0٪ پر گر گیا، یعنی کوئی خاتون وزیر نہیں رہی۔ اسی طرح خواتین کے لیے مخصوص نشستیں تو موجود ہیں، مگر پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں ان کا اثر نہایت محدود ہے۔ اکثر خواتین کو صرف علامتی طور پر آگے لایا جاتا ہے۔
اس رپورٹ پر قومی کمیشن برائے خواتین کی طرف سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ جن میں ایک تو ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ڈیٹا کلیکشن کے عمل پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس کچھ حقائق کو درست نہیں بتایا گیا ہے جیسا کہ کسی بھی وزیر یا مشیر کا حکومتی کابینہ کا حصہ نہ ہونا۔ کمیشن کی طرف سے تصحیح کی گئی ہے کہ نہ صرف اس وقت وفاقی کابینہ میں محترمہ شزا فاطمہ خواجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی وزیر ہیں۔
بلکہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی مریم نواز ہیں اور ان کے ساتھ بھی خواتین وزرا موجود ہیں۔ گو کہ ورلڈ جینڈر گیپ انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں یہ ایک چھوٹی غلطی کہی جا سکتی ہے مگر اس کی بنا پر پوری رپورٹ کو تو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ہمارے ہاں آئے روز خواتین کے حوالے سے جو واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور جو مجموعی صورت حال پائی جاتی ہے، وہ بھی اس رپورٹ میں بتائے گئے اعداد و شمار کی نفی تو ہر گز نہیں کرتے۔
پھر اگر پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز ہیں تو وہ بھی ایک بڑے سیاسی گھرانے کی وجہ سے ہی اس عہدے پر موجود ہیں۔ ورنہ یہاں پر تو ابھی تک یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ جب کوئی عورت حکمران بن جائے تو پھر عذاب آتا ہے۔ پھر ایک وزیر اعلیٰ کے طاقت ور عہدے پر ہونے کے باوجود بھی مریم نواز کو صرف عورت ہونے کی وجہ سے جس قسم کی مسوجنی سے بھرپور سوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بھی کوئی امید افزا پہلو تو ہرگز نہیں ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر جس قسم کی مہم ان کے خلاف چلائی جاتی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
پاکستانی معاشرے میں عورت کو عزت دینے کی بات عام ہے، مگر جب وہ اپنے حقوق کی بات کرتی ہے، تعلیم یا ملازمت کی خواہش ظاہر کرتی ہے، یا جسمانی خودمختاری پر زور دیتی ہے تو اسی معاشرے سے اسے "بے حیا”، "مغرب زدہ” یا "فیمینسٹ ایجنڈے کی نمائندہ” جیسے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ یہ تضاد صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی رویوں، اداروں اور پالیسیوں میں بھی موجود ہے۔
ریاست کی سطح پر خواتین کے لیے متعدد قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر متاثرہ خواتین کو پولیس، عدالتوں یا دیگر اداروں سے انصاف کے بجائے مزید ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا میں بھی عورت کو یا تو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے یا پھر کردارکشی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستان اگر واقعی جینڈر گیپ کم کرنا چاہتا ہے تو محض بیانات اور دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے: تعلیم کو ہر بچی کے لیے لازم اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔ خواتین کی معاشی شمولیت کے لیے روزگار، تربیت اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ صحت کی بنیادی سہولیات ہر عورت تک پہنچائی جائیں۔ سیاسی سطح پر خواتین کی حقیقی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ میڈیا اور نصاب کے ذریعے صنفی برابری کو فروغ دیا جائے۔
جینڈر گیپ انڈیکس میں سب سے نیچے آنا محض ایک نمبر نہیں بلکہ ایک سماجی اور ریاستی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اب یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم کب تک انکار کی نفسیات میں جیتے رہیں گے، اور کب حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے عورت کو برابر کا شہری تسلیم کریں گے۔
پاکستانی عورت کو محفوظ کہنا آسان ہے، مگر اسے واقعی محفوظ بنانا مشکل ہے۔ اور یہی وہ مشکل ہے جسے ہمیں قبول کرکے حل کرنا ہوگا۔




