غزل

غزل /شعورِ ذات کی یہ آخری نشانی ہے/احسان علی احسان

غزل 

احسان علی احسان 

یہ دنیا خواب کی صورت ہے اک کہانی ہے

وجود بکھرا ہوا، پھر بھی سب میں پانی ہے

 

کبھی سکون کبھی اضطراب کی لہریں 

یہ وقت خود ہی سمندر ہے خود روانی ہے

 

میں جس کو چھو نہ سکا، وہ مری حقیقت تھی 

وہ ایک لمس میں لپٹی ہوئی نشانی ہے

 

میں جس وجود کو مٹی سمجھ کے آیا تھا

اسی کے بطن میں پھیلی مری نشانی ہے

 

یہ زیست رنگ بدلتی رہے تعجب کیا 

کبھی خزاں، کبھی امّیدِ شادمانی ہے

 

یہ دل کا آگ میں جلنا ہے رمزِ آگاہی

  شعورِ  ذات کی یہ  آخری  نشانی ہے

 

مرے خیال کا دریا تھما تو میں سمجھا

شکستِ موج میں شائد میری جوانی ہے

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x