پاکستان نے استنبول مذاکرات کے حوالے سے افغان طالبان کا بیان مسترد کر دیا/ اردو ورثہ
پاکستان نے ہفتے کو افغان طالبان کے ایک ترجمان سے منسوب بیان مسترد کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’استنبول مذاکرات کے دوران افغانستان ان افراد کو ملک بدر کرنے پر تیار تھا جنہیں اسلام آباد اپنی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، مگر پاکستان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔‘
اس پر پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے کل ایکس پر ردعمل دیا کہ ’پاکستان استنبول مذاکرات سے متعلق افغان ترجمان سے منسوب بیانات میں حقائق کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو مسترد کرتا ہے۔
’پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان میں موجود وہ دہشت گرد جو پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، ان پر قابو پایا جائے یا انہیں گرفتار کیا جائے جبکہ افغان فریق کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں‘
Pakistan rejects deliberate twisting of facts attributed to Afghan spokesperson regarding Istanbul talks.
Pakistan had demanded that terrorists in Afghanistan posing a threat to Pakistan be controlled or arrested.
When the Afghan side said that they were Pakistani nationals, pic.twitter.com/m8fvr29HXK— Ministry of Information & Broadcasting (@MoIB_Official) November 1, 2025
دونوں ملکوں کے درمیان اکتوبر میں ہونے والی خوں ریز سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ میں امن مذاکرات ہوئے اور 19 اکتوبر کو جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔
بعد ازاں 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔
پاکستان نے 29 اکتوبر کو مذاکرات کے دوسرے دور کی ناکامی کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی نے 30 اکتوبر کو ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ میزبان ترکی کی درخواست پر اسلام آباد نے افغانستان سے استنبول میں دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کر لیا۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ روز افغان ترجمان کے بیانات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام انڈین پراکسیز سے واقف ہیں۔
افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں پر واضح کرناچاہتاہوں کہ
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سیکیورٹی پالیسیوں پر تمام پاکستانیوں بشمول ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔پاکستانی عوام بالخصوص خیبر پختونخواہ کے لوگ، افغان طالبان…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) November 1, 2025
ایکس پر اپنی پوسٹ میں خواجہ آصف کا کہنا تھا ’افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سکیورٹی پالیسیوں پر تمام پاکستانیوں بشمول ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اور خیبر پختونخوا کے لوگ، افغان طالبان رجیم کی طرف سے انڈیا کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کے ارادے یا طرز عمل کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رکھتے۔
انہوں نے مزید کہا ’یہ غیر نمائندہ افغان طالبان رجیم ہے جو اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے اور وہ افغان نسلوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر کی ذمہ دار ہے، جب کہ عوام کے بنیادی حقوق اظہار رائے، تعلیم اور نمائندگی کے بنیادی حقوق کو بھی سلب کر رہی ہے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’چار سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی افغان طالبان رجیم بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی اور اب بیان بازی کے ذریعے اور بیرونی عناصر کے لیے پراکسی کے طور پر کام کر کے اپنی ہم آہنگی، استحکام اور حکمرانی کی صلاحیت کی کمی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
’اس کے برعکس، پاکستان کی پالیسی اپنے شہریوں کو سرحد پار دہشت گردی اور خوارج کے گمراہ کن نظریے سے بچانے کے لیے متحد، غیر متزلزل اور قومی مفاد کے ساتھ ساتھ علاقائی امن و استحکام کے حصول کے لیے بھی ہے۔‘




