اُردو ادبافسانہ

کُرتا/ دل شاد نسیم

چھوٹے سے لال اینٹوں کے بنے صحن میں ایک طرف کمرہ تھا اور اْس کے بالکل سامنے چولہا رکھ کر اْسے باورچی خانہ کا نام دے دیا گیا تھااور اسی کے ساتھ والی دیوارپر لگی پیتل رنگ کی ٹوٹی جس سے سرکاری پانی قطرہ قطرہ یوں بہتا رہتا جیسے کوئی بِرہن ہجر کی ماری بن بات رو پڑے۔۔ زمین میں عین اس جگہ سوراخ ہو چکا تھا معلوم ہوتازمین کی سختی بھی اِس مسلسل عذاب سے گھبرا چکی ہے ، تو پھر کچے دھویں میں روٹیاں پکاتی تاجی کا جی کیوں نہ گھبراتا۔۔
تاجی کا آٹھ سالہ بیٹے معین جس کو غربت نے پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہ دیا بمشکل پانچ ایک سال کا دِکھتا۔ صحن کی پیلی ،کمزور یرقان زدہ روشنی میں سکول کا کام کر رہاتھا ، نذیر اپنے اطراف روز کی طرح بہت سے میلے ، پرانے ، گوٹے کناری والے مَسلے کپڑے لیے بیٹھا خوش ہو رہا تھا۔۔ تاجی کو ہمیشہ حیرت ہوتی نذیر کیسے اتنا خوش رہتا ہے اور وہ ۔۔ کیوں نہیں رہ سکتی یکدم روٹیاں سینکتی تاجی کے کان میں نذیر کی آواز آئی کھردری بلغمی آواز جس کو سن کے ایک بار تاجی غیر ارادی طور پے اپنا گلا ضرور صاف کرتی مگر اس نے نذیر سے کبھی نہ کہاکہ اْس کی آواز تاجی کی ملائم سماعت پر خراشیں ڈالتی ہے اْسے نذیر سے محبت ہوتی تو اْسے کوئی صلاح دیتی ۔۔ نذیر بہت خوش تھا۔ ”لے بھئی دیکھ ہم غریب مہنگائی کو روتے ہیں اور بابو لوگ نئے نکور کپڑے کچے پکے برتنوں کے لئے آرام سے بیچ دیتے ہیں ۔۔یہ دیکھ کیسا پیس ہے۔۔؟”
تاجی کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اپنے دھیان میں روٹیاں دسترخوان میں لپیٹتے لپیٹتے بولی ۔۔ ”امیروں کو کیا پڑی ہے کچے برتن خریدنے کی وہ بھی پھیری والے سے وہ تو اپنی کام والیوں کو دے دیتے ہوں گے کپڑے ۔۔ وہی بیچ باچ دیتی ہوں ۔۔۔۔۔”
بات کرتے کرتے تاجی نے سر اْٹھایاوہ جسے پیس کہہ رہا تھا ،کْرتا تھا۔۔ نذیر ہاتھ اْونچا کیے اْسے دِکھا رہا تھا۔پیلی روشنی کرتے کی سفیدی نگل چکی تھی ۔۔۔ یا پھر کْرتا ہجر کے دکھ سے زرد ہو چکا تھا ۔۔تاجی بات بھول گئی ۔۔ نذیر نے بلغمی قہقہ لگایا اور کرتا تاجی کی طرف بڑھا دیا۔۔ کہنے لگا ” مجھے پہلے ہی پتہ تھا تْو دیکھے گی تو دیکھتی رہ جائے گی ہاتھ میں پکڑ کے دیکھ بزاری کڑائی(کڑھائی) نیئں لگتی۔۔ لگتا ہے کسی نے بڑی جان ماری ہے ۔۔ ” پھر ہنسا
۔۔”ہمیں اس سے کیا ۔” اْس نے کْرتا گول مول کر کے اپنی لکڑی کی ٹانگ کے نیچے دبایا۔۔ ” تْو کھانا لگا بڑی سخت بھوک لگی ہے چل معین بند کر اپنا بستہ تْو شام کو اپنا کام کیوں نئیں کر لیتااب کھانے کے ٹیم پہ تجھے سکول کا کام یاد آجاتا ہے ۔۔ تاجی ! ” اْس نے تاجی کو

دیکھا مگر محسوس کئے بغیر بولا۔”کھانا لگا جلدی سے۔۔معین میرے ہاتھ دھلا دے ۔۔”
تاجی کا سکتہ ٹوٹا وہ ایک پلیٹ میں سالن اور چنگیر میں روٹیاں لے کے خود کو گھسیٹتی ہوئی اْٹھی باپ بیٹے کے سامنے کھانا رکھ کے پلٹنے لگی کہ نذیرنے اْس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اْسے جب تاجی پہ بہت پیار آتا وہ یہی کہتا ”جب تک تْو نیئں آئے گی میں کھانا نیئں کھائوں گا ۔ ”
”میں پانی لے آئوں۔۔”تاجی نے مری مری آواز میں کہا ۔۔
نذیر نے ہاتھ چھوڑ دیا اور ہنس کر بولا ۔۔ ” کل اسے بیچ کر جتنے پیسے ملیں گے سب تیرے ہاتھ پہ رکھ دوں گا کل تو نے مرغا پکانا ہے ۔۔” پھر ہنستا ہے ۔۔” اتنی دال کھلائی ہے تو نے اْس کو چْگنے کے لیئے مرغا بہت ضروری ہے ۔۔” پھر تاجی کا جواب لئے بغیر ہی ہنستا چلا گیا تاجی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اْس کے مْنہ پہ ہاتھ رکھ دے۔۔ نذیر سے آنے والے دن میں ملنے والی دھاڑی کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔۔
کھلے آنگن میں گرمیوں کا چاند بادلوں سے کھیل رہا تھا کبھی روشنی بہت تیز اور کبھی مدہم ہو جاتی ٹوٹی کی ٹپ ٹپ سکوت کو توڑدیتی تو کبھی اْس کی اپنی لا متناہی سوچیں ۔۔۔ نذیر جاگ رہا تھا ورنہ اْس کے خراٹے اْس کی چھوٹی سی دنیا میں زلزلہ لانے کو کافی تھے ۔۔نذیر نے دیکھا تاجی کی چمکدار آنکھوں کی نمی چاند کی روشنی میں ستارے بنا رہی تھی نذیر کو ہمیشہ گمان رہا کہ خاموشی تاجی کی عادت ہے وہ ہے ہی روکھی پھیکی اْس نے کبھی یہ نہ سوچا۔ ۔ دو وقت کی روٹی ،ایک بچہ اور کچا پکا مکان زندگی نہیں ہوتا ۔۔ زندگی جینے کے لئے کچھ اور بھی چاہئیے لیکن نذیر ایسے لطیف احساس سے بہت دور تھا۔ ”تاجی ۔۔” نذیر نے بلایا تاجی نے کچھ کہے بغیر اس کی طرف کروٹ لی دونوں کی چارپائیوں کے بیچ بمشکل تین بالشت کا فاصلہ ہو گا لیکن یہ تین بالشت کا فاصلہ تاجی کو تین جنموں کا لگتا ۔۔
”کیا تو بھی وہی سوچ رہی ہے جو میں سوچ رہا ہوں ؟”
”تم کیا سوچ رہے ہو ؟ ”اْس نے اْلٹا سوال کیا ۔۔
”میں سوچ رہا ہوں آج کل پہلے جیسے حالات نیئں رہے بڑی شو شا آگئی ہے لوگوں میں کوئی پرانی چیزوں کو خریدتا ہی نیئں ۔۔ پھر بھی کتنے میں بک جائے گا کرتا ۔۔۔ ؟”
”تمہیں کتنے میں ملا ۔۔ ” سوال کرتے کرتے اْس نے اپنی دل کی دھڑکن کو اپنے کانوں میں سنا ۔۔
”شیدا بتا رہا تھا چار کچی مٹی کی پیالیاں دی تھیں اس نے ۔۔۔”
تاجی نے مارے دکھ کے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر بری طرح کچلا ۔۔۔”بس ۔۔ چار کچی مٹی کی پیالیاں ؟ یہ

قیمت لگی اْس کْر ۔۔۔۔ تے کی ۔۔” اْس نے اپنی آہوںکو خود محسوس کیا تاجی کی آنکھ سے پھر ایک تارہ ٹوٹا اور کان کی کٹوری میں غائب ہو گیا ۔۔۔
میں بھی یہی سوچ رہا تھا جانے اْس کا اچھا مول لگتا ہے کہ نہیں سو روپے معین کی فیس جاتی ہے تم بتا رہی تھی سکول سے خط آیا ہے کہ فیس نہ دی تو وہ معین کو سکول سے نکال دیں گے اگر مرغا اگیا تو فیس ۔۔۔ فیس کہیں رہ نہ جائے ۔۔۔سو سے زیادہ کا تو نہیں بک سکے گا ۔۔۔”
تاجی نے دل کی دیواروں کو توڑتے طوفان کو بڑی مشکل سے روکا ۔۔”اور اگر کل نہ بک سکا تو ۔۔؟”
نذیر نے پھیکی ہنسی ہنس کے بولا ۔۔۔۔” مجھے پہلے ہی شک تھاتیری نیت ضرور خراب ہو جائے گی ۔۔۔” تاجی نے اْن سنی کر کے پوچھا ۔۔”شیدے نے کہاں سے لیا ۔۔۔ کْرتا ” ۔۔ کرتا اْس نے زیرِلب ہی کہا۔۔
نذیر نے خود کو گھسیٹا اور کروٹ بدلی ” مجھے کیا پتہ کہاں سے لیا تھا ۔۔۔ مجھے سونے دے ۔۔۔”
اْسے نذیر کے سونے کا ہی تو انتظار تھا فضا میں ٹوٹی کے ٹپکتے قطروں کی جگہ اب نذیر کے خراٹوں نے لے لی تھی اْس نے سر اْٹھا کے اپنے ادھورے شوہر کو دیکھا اْسے خود پرترس آگیا ۔۔ معین کا ہاتھ پرے کیا اس کی شرٹ اوپر تک آئی ہوئی تھی اْسے معین کے کمر سے لگے پیٹ سے خوف محسو س ہونے لگا یہ وہ سکون تو نہیں تھا جس کا خواب ماں نے تاجی کی آنکھ میں رکھا تھا وہ تو خواب سے پہلے تعبیر کا غم ڈھو رہی تھی ۔۔تاجی نے معین کی شرٹ نیچے کی اور خود بے آواز اْٹھ کر کمرے میں چلی گئی کپکپاتے ہاتھوں سے کھٹکا دبا یا اندھیرے کمرے میں مردہ سی روشنی پھیل گئی تاجی نے بے تابی ے کپڑوں کی گٹھڑی کو کھولا اور کپڑوں میں ہاتھ ڈال کر کرتے کی اپنائیت کو محسوس کیا۔۔ بے تابی مگر احتیاط کے ساتھ اْس نے ہاتھ کھینچا۔۔۔ کرتا اْس کے ہاتھ میں تھا اْس نے پلکیں جھپکیں جانے کرتا میلا تھا یا اْس کی آنکھوں میں بسی آنسوئوں کی دھند نے اسے ملگجا کر دیا تھا ۔۔ تاجی اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھیں صاف کیں ۔۔مگرآنسو اب کہاں رکنے والے تھے۔۔ اْس نے کرتے پر یوں ہاتھ پھیرا جیسے کرتا اْس کے ہاتھ میں نہ ہو منوں نے پہن رکھا ہو اور تاجی اس سے شکوہ کر رہی ہو ۔۔ ”رے منوں تْو نے میرا پیار کچی مٹی کی چار پیالیوں کے عوض بیچ دیا ۔۔ تْو تو کہتا ہے تھا تْو مر جائے گا پر ساری عمر اِسے سینے سے لگا کے رکھے گا ۔۔”
تاجی نے گٹھڑی دوبارہ باندھ دی اور کرتا تہہ کر تے کرتے کئی بار اس کا ضبط ٹوٹا اْس نے کئی بار اْسے وارفتگی سے چوما ، آنکھوں سے لگایا اور کمرے کی کھڑکی کے پیچھے پردے میں رکھتے رکھتے بھول گئی کہ نذیر جب صبح اسے گٹھڑی میں
نہیں پائے گا تو ۔۔۔ تو کیا ہو گا

اس رات بھی چاند ایسے ہی چمک رہا تھا جب منوں نے اس سے کہا تھا ۔۔تیرا پیار۔۔پیار تھوڑی ہے میرے لئے احسان ہے ۔جو احسان بھولے ،کائر ہو کے مرتاہے۔
تاجی کے سارے منظر ہی دھندلے ہو گئے۔ہائے منو میرا پیا ربھول جاتا احسان تو نہ بھولتا۔
اس رات نے تو جیسے پیروں میں لوہے کی زنجیریں پہن لی ہوں۔سرک ہی نہ رہی ہو ۔جیسے مےّت کا گھر۔ساری رات بین کرتے گزر گئی۔اذانوں کے وقت ذرا سی جھپکی لگی کہ نذیر نے آواز دی ۔
‘ چل اْٹھ اذانیں ہو رہی ہیں،نماز نہیں پڑھنی کیا ؟’ ۔
اسے یوں لگا جیسے نذیر نے کہا ہو، میّت نہیں دفنانی کیا۔ وہ رات کی جاگی وحشت سے نذیر کو دیکھے گئی۔
‘ ایسے کیا دیکھ رہی ہے ؟’۔نذیر نے اِسے محبت جانا۔
تاجی نے پلاسٹک کی چپل پیروں میں اڑسی اور بنا کچھ کہے اٹھ کر چلی گئی۔
شیدا آیا معین اور نذیر دونوں کو لے کے چلا گیا۔تاجی نے دروازہ بند کر کے بھاگ کے کرتا نکا لا۔اور جلدی
جلدی دھونے لگی۔اسے اتنی محبت سے ایک بار پہلے بھی وہ دھو چکی تھی جب اس نے کاڑھ لیا تھا،سلائی سے پہلے۔منوں سے چھپ کر گرمیوں کی تپتی دوپہر میں اس نے کمرے میں بند ہو کے گزاریں تب کہیں جاکر مکمل ہوا تھا۔کرتا تار پر ڈال کر اس نے جلدی جلدی ہانڈی چڑھائی۔بار بار اس کی نظر ہوا کی شہہ پہ ہلتے کرتے پہ جاتی اسے یوں لگتا منو ںسینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا ہے۔ایک بار تو اس نے منو کا ہاتھ بھی جھٹکا۔’مجھے کھانا پکانے دے شیداروٹی لینے آتا ہی ہوگا’۔ کہہ کر جب اس نے سر اٹھایا ،وہاں کوئی نہیں تھا۔تار پر بے وفائی کھڑی تھی۔
تاجی کو یاد آرہا تھا چھت پر سیمنٹ کی دیوار سے ٹیک لگائے لگائے اس نے کتنے نخرے سے پوچھا تھا۔’یہ تو بتا
کتنا پیار کرتا ہے مجھ سے؟’۔منوں سوچ میں پڑ گیا۔
تاجی کا دل بجھ سا گیا۔اس نے کتنے دنوں کی گرمی کھا کر اس کے لئے سفید لون کا کرتا کاڑھا تھا۔اور اس کو دینے آئی تھی
منو کو یوں سوچ میں گم دیکھا تو کرتا ڈوپٹے کی آڑ میں چھپا لیا۔اور اٹھنے لگی۔۔رہن دے پیارہوگا تو بتائے گا نا۔اٹھتے اٹھتے تاجی کی چوٹی منو کے ہاتھ میں آگئی اس نے ہاتھوں پہ دو بل دے کہ اسے اور قریب کر لیا۔ ‘میں تو یہ سوچ رہا تھا کاش میں اگلے چار سو سال تک تجھے اس طرح بیٹھ کر دیکھتا رہوں۔اس کالہجہ مخمور ہونے لگا۔تاجی کا دل زور سے دھڑکا۔بے ساختہ اس کا سر منوں کے کاندھے پہ ٹک گیا۔شور مچاتی دھڑکنوں کے سازپر سرگوشی میں بولی۔’چار سو ایک سال کیوں نہیں؟’ منوں نے اسکے کان میں کہا ‘ہو سکتا ہے میں اتنا نہ جی سکوں ‘۔

تاجی ایک جھٹکے سے منو ںسے علیحدہ ہوئی ‘چل اتنی ہی ٹھیک ہے’۔یہ دیکھ ،اس نے خوش ہو کر دوپٹے کی آڑ سے کر تا نکالا۔’تیرے لئے کاڑھا ہے۔سیا ہے ۔’
منو ںنے کرتا آنکھوں سے لگا لیا۔’میرے لئے؟’۔ ناقابلِ یقین حیرت سے پوچھنے لگا تو تاجی اِترا گئی ۔’ہاں تیرے لئے میں نے خود بنایا ہے’۔
منو ںنے کرتے پر ہاتھ پھیرا ‘اتنا خوبصورت ،ایک ایک ٹانکے میں اپنا پیار پرو کے دے دیا تو نے’۔اس نے کرتا چوم لیا۔تاجی نے سخاوت سے کہا ‘تجھے اچھا لگا تو ایک اور بنا دوںگی’۔منوں گھبرا کر بولا ‘نہیں نہیں ۔ ‘ اس نے تاجی کے
ہاتھ سید ھے کئے جہاں سوئیوں نے چھوٹے چھوٹے سوراخ کر دیئے تھے ۔’میں ان ہاتھوں کو اور تکلیف نہیںدے سکتا’۔ تاجی ہنس دی۔’بہت پاگل ہے تو اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔سو روپے کا کپڑا آیا بتیس روپے کا دھاگہ اور دس روپے کی چھپائی۔ کل ملا کر کتنے ہوئے۔؟’ ہنس دیتی ہے ۔’تو اسے تکلیف سمجھتا ہے’اس نے تکلیف پر زور دے کر کہا ۔ ‘اتنا تو سستا بنا ہے۔’
منوں نے تاجی کی آنکھوں کو چوم لیا”تیری آنکھوں کا نور ہے یہ۔سوچتا ہوں کیسے چکا پائوں گا اس کی قیمت۔ اتنی محبت۔اتنی چاہت۔”تاجی منو کے ماتھے کی لٹ پیچھے کر کے وارفتگی سے بولی”جب تو اسے پہنے گا تواسکی قیمت آپ ہی چکتا ہو جائے گی۔” پہن کر دکھا نا۔
منو مسکرا کے اسے دیکھ رہا ہے۔”پھر تو میں اسے تیرے بیاہ والے دن پہنوں گا۔”
دروازہ بج رہا تھا ۔تاجی ہوش کی دنیا میں وآپس آگئی ہنڈیا کے جلنے کی بو سارے گھر میں پھیل چکی تھی۔تاجی نے
جلدی سے ہنڈیا اتاری اور دروازہ کھولا۔
شیدا کھانا لینے کے لئے کھڑا تھا۔شیدے نے بھی جلنے کی بو محسوس کی۔”پرجائی سالن لگ گیا لگتا ہے۔”
‘ہاں’ اس نے مختصراََ کہااورہمت کر کے کرتے کے مالکوں کا پتہ پوچھا۔
شیدا ہنس دیا۔”استاد کہہ رہا تھا عورتوں کو تو کوئی اچھی شے دکھانی ہی نہیں چاہئے۔
”خفا تو نہیں تھا” تاجی کا دل پھر زور سے دھڑکا۔شیدے نے بد رنگ مگر صاف دستر خوان کی گرہ لگائی اوراسے دیکھ کر روانی سے بولا۔”پرجائی خفا ہوتے کبھی دیکھا نہیں استاد کو۔”شیدا جاتے جاتے مڑا ۔”ویسے تم نے کیا کرنا ہے؟ انکا پتا بہت دور ہے سواری کے بغیر نہیں جا سکتا کوئی وہاں۔”تاجی نے سر ہلا یا۔”تیری مرضی ہیمیرا کام تھا صلاح دینا۔”
تاجی نے دروازہ بند کیا او ر رو پڑی۔اس منحوس صلاح ہی نے تو مارا تھا مجھے۔تاجی نے اپنا صاف ستھرا دوپٹہ جستی ٹرنک

سے نکالااور کرتا تہہ کر کے اس میں یوں لپیٹا جیسے اس کا دوپٹہ دوپٹہ نہ ہو جزدان ہو ۔اور کرتاکرتا نہ ہو ۔کوئی صحیفہ ہو۔
منوں تو نے کیوں بیچا میرا پیار۔اتنا سستا۔(اسکا سانس بند ہو رہا تھا۔ایسی بھاری سل سینے پہ دھری تھی کہ جیسے اب جان نکلی کہ تب۔
اس پر بے بسی سے ایڑھیاں رگڑنے کی سی کیفیت طاری ہو چکی تھی۔تمہیں تو یاد بھی نہیں ہوگا منوں جب تم نے
مجھے اماں کی آرزو سنائی تھی۔میں تو اماں کو منع کر چکی تھی کہ مجھے کسی کے ساتھ بیاہ نہیں کرنا۔پر تیرے سامنے۔۔
ہائے کاش تو کہتا ، تاجی دریا میں کود جا میری خاطر تو میں ہنس کر کود جاتی۔۔اب بھی کودی ہوں پر یہ دریا تو آگ ہے۔ روز جلتی ہوں ۔روز مرتی ہوں۔
تیرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی تھی تو آسمان کو چھو لیتی تھی۔اور تجھے پتا ہے ۔نذیر کے ساتھ تو میں کبھی چلی نہیں ۔
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کے شوہر کے ساتھ چلتے ہیں تو کونسا احساس دل میں جاگتا ہے۔ہماری شادی کے بیس دن بعد ہی ایک بم دھماکے نے اسکی ٹانگیں ہوا میں یوں اچھالیں جیسے گنڈیری کی ُگلیاں۔
مجھے شیدے نے بتایا تھا ۔وہ ہانپتا ہوا گھر میں آیا۔ اس وقت میں بالوں میں رنگین کلپ لگا تے لگاتے آئینہ دیکھ رہی تھی۔ پتا نہیں کیسے مجھے آئینے میں تم دکھائی دینے لگے۔اگر شیدا نہ آتا۔نہ آتا تو بھی ۔ کونسا تو نے میرے پاس رہ جانا تھا۔
تاجی نے اپنے خیال کو جھٹکا۔گھر کو بند کیااور باہر نکل آئی۔کرتا سینے سے لگائے۔
منو تجھے یاد ہے تو نے مجھے بتایا اماں کہتی ہے’ نذیر کی اپنی دکان ہے کھاتا کماتا ہے میں راج کروں گی۔اور میںنے تجھ سے کیا کہا تھا۔تاجی کا دل دکھ سے بھر گیا۔تجھے کہاں یاد ہوگا۔تاجی نے آپ ہی سوال کیا اور آپ ہی جواب دیا۔
”میں نے کہا تھاراج تو پیار میں ہوتا ہے۔اس شام کتنا کہرا تھاٹھنڈے ہونٹ اور ہو کر لرز رہے تھ۔ کبھی کبھی اللہ میاں موسموں کو ہمارے حق میں کر دیتا ۔ اس شام بھی ایسا ہی ہوا۔ میرا بچہ کانپ رہا تھا۔ تیرے پیار کے جگنو تیری آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے ہم نے ایک دوسرے کو اتنا اداس کبھی نہ دیکھا۔پتہ نہیں کتنا وقت ہم ساتھ رہے۔پر تم نے کہا کہ ٹھنڈ بہت ہو گئی گھر چل۔ہوا نہ لگ جائہ۔
اماں کتنا خوش تھی۔پائوں زمین پر ٹکتے نہ تھے۔منوں کے قصیدے آتے جاتے واری صدقے۔ چوڑے پٹے والا دوپٹہ اوڑھ کر مہندی کی رسمیں ادا کرتے ماں کو میرا دکھ دکھائی نہ دیا۔
اور اس رات جس صبح بارات آنی تھی۔ اچانک تاجی کے گلے میں کانٹے اگ آئے اس نے پیاس کو شدت سے محسوس کیا۔مگر آس پاس کہیں پینے کو پانی نہیں تھا چلتے چلتے وہ اپنے گھر سے دور بڑی سڑک پر نکل آئی تھی۔پلاسٹک کی چپل نے

ایڑھی پر کیل اگا دیا۔ لیکن منوں سے ملنے کی لگن ہر شے پر بھاری تھی۔
اس راس رات منوں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مگر تاجی کی آنکھوں میں مسلسل برسات کی دھند تھی۔پیلے جوڑے میں ابٹن اور مہندی کی خوشبوں میں بسی تاجی کو منوں نے نظر بھر کے دیکھا ہی نہیں۔ اس سے دیکھا ہی نہ گیا۔
تاجی کا جسم سسکیوں سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔وہ لرزتی دھیمی سرگوشیوں میںایک ہی ساز پر توجہ کناں تھی۔منوں سن کہا ںرہا تھا۔وہ تو اس کی ایک ایک سانس کوخود ہی اتار رہا تھا۔تاجی کہہ رہی تھی۔
منوں میری تو نہ کوئی سہیلی ہے نہ بہن۔ سارا بچپن تیرے ساتھ بیر توڑتے کچی کچی امبیاں کھاتے۔تیرے لئے اماں سے جھڑکیاں کھاتے گزر گیا۔تو جب بہت یاد آئے گا ۔تو میں کس سے کہوں گی کہ اب تیری یاد مجھ سے سہی نہیں جا رہی۔میں تیرے بہانے کس سے لگ کر رئوں گی۔منوں تیرے واسطے نے مجھے بے موت مار دیا ہے۔اللہ کرے مجھے تجھ سے محبت نہ رہے۔اس نے روتے روتے رخ پھیر لیا۔منوں نے شکر ادا کیا اور اپنی آنکھیںصاف کیں۔وہ کافی دیر سے آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا کہ کھلیں گی تو اس کے آنسو چھپ نہ سکیں گے۔تیرا ایک اور احسان ہے مجھ پہ۔میں نے خالہ سے وعدہ کیا تھا۔تجھے نذیر کے لئے منا لوں گا۔تاجی بلیلا گئی۔اور جو مجھ سے وعدہ کیا تھا۔پورے چار سو سال کا۔وہ پلٹ کربولی۔ منوں نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور آنکھیں بند کر کے بولا۔جب تک زندہ ہوں اپنے وعدے کا پابند رہوں گا۔
تاجی بگڑ گئی۔پلٹ کر بولی۔مجھے اس سے کیا۔میرے تو نہیں رہو گے ناں۔مجھے تو۔تیری خدمت کرنی ہے۔تیرے پیر دبانے ہیں۔تیرے لئے کھانا بنانا ہے۔رات دیر تک چوکھٹ پر بیٹھ کر۔تیرا انتظار کرنا ہے۔وہ بات کرتے کرتے جیسے ہار گئی۔میں کسی اور کے انتظار میں کیسے جاگ سکوں گی۔
منوں کا دل بھر آیا اس سے رہا نہ گیا۔تاجی کو سینے سے لگا لیا۔تاجی کا ہاتھ منوں کے کندھے سے سینے پر آکر رک گیا اور اس نے روتی آنکھوں سے مسکرا کے پوچھا۔تو نے کرتا پہن لیا۔منوں کی آنکھیں نمی سے چمک رہی تھی۔تجھے دکھانا بھی تو تھا۔اورمیں نے تم سے کہا تھا۔تیری شادی پہ پہنوں گا۔
اگلے دن منوں ملا ہی نہیں۔پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔اماں بار بار بول رہی تھی۔دیکھو ذرا شادی والا گھر ہے منوں کا کہیں پتہ نہیں۔کوئی ایسا بھی کرتا ہے بھلا۔یہ تو تاجی ہی جانتی تھی ۔کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
چلتے چلتے تاجی کو ٹھوکر لگی۔چپل ٹوٹ گئی۔اس کا دل ہول گیا۔کہتے ہیں جوتی کا ٹوٹنا اچھا نہیں ہوتا۔
اللہ کرے کو ئی خیر کی خبر ہو۔منوں ٹھیک ہو۔اس کے دل میں عجیب سے وسوسے نے سر اٹھا یا۔اسے لگا کے منوں اب اس جہان میں نہیں ہو گا۔اسی لئے یہ کرتا۔۔کچی مٹی کے پیالیوں کے عوض بک گیا۔ونہ وہ اپنا اپنا پیار بھرا احسان

میری آنکھوں نور۔ پور پور پیار سے بھرے ٹانکوں کو یوں بکنے دیتا۔تاجی کی رفتار دھیمی پڑ گئی۔اب اس کے دل میں لگن کی جگہ دکھ نے گھیر لی۔یہ بھی تو ہوسکتا اے اب مجھ سے محبت ہی نہ رہی ہو۔اس لئے اس کی نظر میں۔
اس پہلے کہ وہ بھٹکتی۔اس نے شیدے کے بتا ئے راستے پر بڑے سے سکول کے چوکیدار سے پوچھا۔کوئی نمبر دس کہاں ہے۔؟
چوکیدار نے اسے اوپر سے نیچے دیکھا۔اسے تاجی پر ترس سا آگیا۔ٹوٹی چپل۔مٹی سے اٹے پیر۔کبھی وہ حسین ہو گی مگر اب تو چہرے پر بس شکنیں تھیں۔سانولا رنگ سیاہ بھنورا آنکھوں کے گرد اس سے بھی سیاہ حلقے۔
چوکیدار نے راستہ سمجھایا۔تاجی پھر چل پڑی۔اور کوئی نمبر دس کے سامنے کھڑی ہو کر اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔پتہ کس کی کوٹھی ہو سکتی ہے۔کہیں منوں یہاں ملارم ہی نہ ہو۔یا پھر اس کی بیوی۔
بیوی کا سوچ کر اس کا دل کانپ گیا۔آنکھیں اور اندر گھس گئیں۔اس کا جی چاہا۔منوں کبھی شادی نہ کر ۔اس کے لئے بیٹھا رہے۔تاجی کے لئے جو اس کی خاطر تن سے۔۔ کسی اور کی ہو گئی۔من۔ منوں کے اندر چھوڑ کر۔
تاجی نے کپکپا تے ہاتھرں سے بیل بجائی۔ایک خوبصور ت صاف ستھری عورت بولتی ہو ئی گیٹ کے قریب آرہی تھی۔
چوکیدار نے بھی آج ہی چھٹی کرنی تھی۔میں تو صبح سے گیٹ کھول کھول کر تنگ آچکی ہوں۔اس پر حمیداں کیچن ہی نہیں چھوڑتی۔عورت نے تاجی کو دیکھا۔عورت کا رعب ۔اس کی دولت مندانہ شان اورحسن میں چھپا تھا۔تاجی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔کس سے ملنا ہے۔؟خلاتوقع عورت نرمی سے بولی۔
تاجی ہکا بکا۔اسے ایسی نرم گفتگو کی توقع نہیں تھی۔
وہ ۔جی منوں۔
ایک آواز آئی۔کون ہے رابعہ۔؟
تاجی کا دل آواز کے ساتھ ڈولنے لگا۔اس نے بے ساختہ جھانکا۔وہ منوں ہی تھا۔اس کا منوں۔اس کی آواز۔اس کا چہرہ۔اس کے لئے ماضی کب بنا جو وہ نہ پہچانتی۔
کوئی غریب سی عورت ہے منور کسی منوں کا پوچھ رہی ہے۔
منور کے آس پاس ایک جھماکا ہوا۔وہ کرسی کے کنارے سے آلگا۔رابعہ نے پھر پوچھا۔کیا کام ہے۔؟تاجی ہکلانے لگی۔جی۔ وہ۔ کام کرو گی۔ رابعہ نے اس کی مشکل آسان کی۔بلا وجہ تاجی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
رابعہ نے کہا۔اندر آجائو۔تاجی چذدان سینے سے لگائے اندر آگئی۔تاجی کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔

منور اسے محسوس کررہا تھا۔اس کا ایک ایک قدم۔اسے تو آج اور میں بس تاجی ہی لگی۔اسے تاجی کا سنولا پن دکھائی ہی نہیں دیا۔
رابعہ نے اسے کہا۔تم بیٹھو۔میں پانی لے کر آتی ہوں۔تاجی اور منوں اکیلے رہ گئے۔تاجی نے جھکے سر سے آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔سناٹے میں تھی۔منوں سفید کرتے پاجامے میں چشمہ لگائے اخبار ہاتھ میں لئے کتنا پرکشش لگ رہا تھا۔بالوں میں کہیں کہیں سفیدی۔اور وہ ایک لٹ ماتھے پہ۔تاجی کا بے ساختہ دل چاہا۔اسے ماتھے سے پرے کردے۔مگر۔اسے ہوش آگیا۔آس پاس سب کچھ اجنبی تھا۔اس کا منوں بھی۔تاجی نے سوچا۔کہیں اس کے آنسو آنکھ سے بہہ نہ جائیں۔ وہ جلدی سے دوپٹہ سر پہ ٹھیک کرنے لگی لیکن۔دوپٹے کی کھونچ اور ٹوٹی چپل۔منوں سے چھپ ہی نہ سکی۔رابعہ پانی لے آئی۔منوں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور کہا۔اسے دے دو۔تاجی نے کمال حیرت سے منوں کو دیکھا۔رابعہ کے پیسے دینے سے پہلے ہی اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔

منوں اور تاجی کی ایک لمحے کو آنکھ ملی اور اس ایک لمحے میں تاجی کی دنیا اندھیر ہو گئی۔یہ وہ منوں تو نہیں تھا۔جس کی خاطر آج تک وہ اپنے شوہر کو مجازی خدا نہ سمجھ نہ سکی۔یہ وہ منوں تو نہیں تھا۔جو اسے چار سال تک یاد رکھنے والا تھا۔یہ تو کوئی اور تھا۔شاید رابعہ کا شوہر۔شاید آس پاس کھیلتی تین چار سال کی بچی کا باپ۔اور اسی ایک لمحے میں تاجی نے رابعہ کے ہاتھ پر سارے نوٹ رکھ کر مٹھی بند کر دی۔تاجی پر بے حسی کا دورہ پڑ چکا تھا ۔وہ سب کچھ سہہ سکتی تھی پر منوں کا اسے اس طرح دیکھنا اس سے دیکھا ہی نہ گیا۔الٹے پیروں بھاگی جزدان وہیں رہ گیا رابعہ نے اسے جاتے دیکھا تو پکارا "ارے یہ تمہارا سامان”

اس نے جھک کر اسے اٹھایا اور سفید کرتا جذدان کی حدوں سے آزاد ہوکر ہری گھاس پر موتیے کے پھول کی طرح کھل گیا۔رابعہ نے اسے اٹھایا لیا۔اور آنکھوں میں حیرت بھر کے بولی۔ "منور یہ یہ۔ تاجی ؟”۔ اس نے پہلے کرتے کو اور پھر جانے والی کو دیکھ کرحیران ہو کر پوچھا۔

منور نے صبر کا بڑا سا گھونٹ بھرا حلق میں نمکین پانی سمندرنے کڑواہٹ بھر دی تو آہستہ سے سر ہلا کر بولا۔ "ہاں تاجی تھی۔۔”

رابعہ اور بھی حیران ہوئی۔” اور یہ کرتا ؟ ” ۔اس نے کرتے کو دیکھا۔اس کے پاس کیسے پہنچا؟”

۔منور کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا تھا وہ تو یہ بھی نہ کہہ سکا کہ شاید میری بے وفائی کا رونا رونے گیا ہو یا پھر یہ بتانے کہ دیکھ تیرے پیار سے پروئے ٹانکے اب وقت اپنے ہاتھوں سے ادھیڑ رہا ہے ، تُو بھی اپنے دل کو اس پرانی محبت سے اذاد کر لے ۔۔۔
۔”مجھے لگتا ہے چوکیدار کی بیوی نے چرایا ہوگا۔اس دن جب میں پرانے کپڑوں کو دھوپ دکھا کر پیٹی میں رکھ رہی تھی۔وہی میرے ساتھ تھی لیکن تم نے تاجی روکا کیوں نہیں۔”

منور نے چشمہ اتار کے آنکھوں کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے مسلا۔ "اگر آج اسے روک لیتا ۔تو وہ کبھی نذیر کی نہ ہو پاتی ۔جانتا ہوں۔آج تک وہ اس کی بھی نہ ہو سکی ہو گی۔لیکن آج میں نے اسے رخصت کردیا پچھلی بار اسے رخصت نہیں کر سکا تھا اس لئے آج نہیں روکا وہ چلی گئی ہمیشہ کے لئے میں نےاسے اپنے پیار کے ہر ہر ٹانکے سے آزاد کردیا”

۔رابعہ اس کے پاس والی کرسی پر بیٹھ کر محبت سے بولی۔”مگر کیا تم خود کو اس کے پیار سے آزاد کر سکو گے۔اس کے پیار میں پروئے کس پھول، کسی پتی ۔۔کسی گرہ سے ؟”

گیٹ کے ساتھ والی دیوار سے لگے لگے تاجی نے سن لیا۔ اور وہ جو یہ سمجھ رہی تھی کہ منوں نے اسے پہچانا ہی نہیں۔۔وہ غلط تھا۔کاش ۔یہ غلط فہمی آخری سانس تک رہتی۔منوں نے اسے نہ پہچانا ہوتا۔اس نے دوپٹہ سے اپنے اپ کو اچھی طرح لپیٹا اور گھر واپس آنے کے لئے ایک ایسا سفر شروع کیا جو ساری عمر ختم ہونے والا نہیں تھا نا مراد عشق سے واپسی کا سفر ایسا تو نہیں تھا۔کہ آسانی سے طے ہو جاتا۔

گھر پہنچی تو نذیر معین کو بہلا رہا تھا۔اور وہ ماں کی گم شدگی پر آسمان سر پر اٹھائے اونچی آواز میں روئے جا رہا تھا۔تاجی کو دیکھا تو روتے روتے سسکیوں اور ہچکیوں کے بیچ پوچھنے لگا۔”کہاں چلی گئی تھی۔؟”

تاجی نے جواب ہی نہیں دیا نذیر کے سامنے مٹھی کھول دی ۔نذیر ہزار ہزار کے کئی نوٹ دیکھ کر پہلے حیران اور پھر خوشی سے بولا۔ "کرتا بیچنے گئی تھی۔؟اس کی آنکھیں چمکیں میں جانتا تھا تجھ سے اچھی قیمت تو اس کرتے کوئی لگا ہی نہیں سکتا اچھا کیا بیچ آئی”۔

تاجی مسلسل پانی گرتی ٹونٹی کے نیچے آکر کھڑی ہو گئی۔پہلے پیر دھوئے پھر چہرہ اور۔ چہرہ دھوتے کئی آنسو بھی گراے۔اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر کہے میں کرتا نہیں بیچا۔منوں نے اس کی قیمت ادا کردی اور اس کی ہی کیا آج تو اس نے سارے حساب چکتا کر دیے ۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x