چمن دھرنا: ’بات اب فاقہ کشی تک آ گئی ہے‘

بلوچستان کے ضلع چمن میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی بنانے اور پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف پچھلے تین ماہ سے زیرو پوائنٹ پر دھرنا جاری ہے۔
تین ماہ سے زائد عرصے سے سرحد بند ہونے کے سبب شہر بھر کے مزدور افراد بدتر حالت کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ’بات اب فاقہ کشی تک آگئی ہے۔‘
10 اکتوبر 2023 کو صوبائی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس، جس میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی، میں غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے اور افغان سرحد پر تذکرہ اور شناختی کارڈ کی بجائے پاسپورٹ کا نظام لاگو کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف چمن میں زیرو پوائنٹ پر 20 اکتوبر 2023 سے دھرنا اور 20 نومبر 2023 سے پاک افغان ٹرانزٹ کا راستہ بند کر دیا گیا تھا۔
چمن میں پاک افغان سرحد کے باب دوستی سے تین کلو میٹر دور جاری اس دھرنے کی حمایت تاجر تنظیموں سمیت تقریباً 20 سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔
صوبائی حکومت چمن کے بے روزگار مزدوروں کے لیے چھ ارب روپے مختص کر کے مزدوروں کے لیے20 ہزار روپے ماہانہ وظیفے کے ساتھ ساتھ ان کو راشن بھی فراہم کر ہی ہے۔
مگر دھرنے کے منتظمین کے ساتھ ساتھ۔ زیادہ تر مزدوروں نے ابھی س پیکج کو لینے سے انکار کیا ہے۔
چمن شہر کے رہائشی ککو نادر خان جو پچھلے کئی سالوں سے پاک افغان بارڈر پر سامان لانے اور لے جانے کا کام کرتے تھے بارڈر بند ہونے کے سبب اب سارا وقت گھر اور دھرنے میں گزارنے پر مجبور ہیں۔
نادر خان نے بتایا کہ ان کی ساری جمع پونجی اب ختم ہونے کو ہے جس کے سبب وہ اب چمن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ککو نادر خان نے بتایا کہ ان کی چلتی ہوئی تجارت بند کر کے حکومت ان کو خیرات لینے پر مجبور کر رہی ہے۔
’ہم روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنے ہاتھوں کی کمائی اپنے بچوں کو کھلاتے تھے مگر حکومت نے وہ بند کر کے ہمیں خیرات دینے کی بات کی۔ خیرات سے نہ تو گھر چلتا ہے اور نہ ہی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔‘
’چمن شہر میں روزگار کا تو صرف یہی بارڈر کا دروازہ تھا جو حکومت نے ہم پر بند کر دیا ہے، چمن میں نہ تو کوئی ذراعت ہوتی ہے، نہ کوئی فیکٹری یا کارخانہ یہاں پر ہے، لوگ زندہ ہی بارڈر سے منسلک روزگار سے تھے۔‘
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں کہ حکومت کا ون رجیم دستاویز کا فیصلہ اٹل ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جان اچکزئی نے بتایا: ’حکومتی فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔‘
چمن شہر سے بارڈر تک رکشہ چلانے والے نصیب اللہ بھی ان ہزاروں لوگوں میں سے ہیں جن کا روزگار بارڈر بند ہونے سے بالکل ٹھپ ہوگیا ہے۔
نصیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چمن شہر میں تین ماہ پہلے تک دو سے تین ہزار لوگ رکشہ اور مسافر گاڑیوں کے کام سے وابسطہ تھے جن سب کے کاروبار ختم ہوگئے ہیں۔
’چمن ایک چھوٹا سا شہر ہے یہاں کام بارڈر کے ساتھ منسلک تھا۔ بارڈر بند ہونے کے سبب اب یہاں دوسرا کوئی کام باقی نہیں بچا۔‘
نصیب اللہ بتاتے ہیں کہ کام ڈھونڈنے کے لیے انہوں نے دوسرے کاموں کے ساتھ دہاڑی دار مزدوری کرنے کی بھی کوشش کی مگر فائدہ نہ ہوا۔
’ہمارے تو بچے ہیں وہ روزی روٹی مانگتے ہیں جس کے لیے میں بذات خود دہاڑی کی مزدوری کرنے کو بھی تیار ہوں اور یہ روڈ صاف کرنے کے لیے بھی تیار ہوں مگر بارڈر بند ہونے کے سبب کچھ نہیں ملتا۔‘
پاکستانی حکومت نے پہلی بار پاک افغان چمن سرحد پر یکم نومبر 2023 سے آمدروفت کے لیے رہائشوں کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دی تھی۔
اس سے پہلے چمن اور سپین بولدک سمیت ڈیورنڈ لائن کے قریب دونوں جانب رہنے والے پاکستانی اور افغان شناختی کارڈ پر آمدروفت کرتے تھے اور روزانہ 20 ہزار کے قریب لوگ بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزے کے افغانستان اور پاکستان آجاتے تھے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔