عالم دین ضیا الرحمٰن کے قتل میں را ملوث ہو سکتی ہے: کراچی پولیس

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ شب کراچی میں معروف عالم دین ضیا الرحمٰن کے قتل میں انڈین خفیہ ایجنسی را ملوث ہو سکتی ہے۔
کراچی میں سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ضلع شرقی عرفان بہادر نے بدھ کو انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ کراچی کے گنجان آباد رہائشی علاقے گلستان جوہر بلاک 16 میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے جامعہ ابی بکر کے ناظم اور معروف عالم دین ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ کو قتل کر دیا ہے۔
ان کے مطابق: ’ضیا الرحمٰن گلستان جوہر بلاک 16 کے پارک میں معمول کے مطابق چہل قدمی کر رہے تھے۔ موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کی، انہیں ایک گولی لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔‘
عرفان بہادر کے مطابق پولیس نے جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم اور 30 بور پستول کے خول قبضے میں لے لیے ہیں۔
’پولیس پارک کے نزدیک واقع فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے دفتر پر لگے کیمروں اور اطراف کی عمارتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر رہی ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایس ایس پی کراچی شرقی عرفان بہادر کے مطابق: ’ابتدائی تفتیش میں پتہ لگا ہے اس واقعے میں پڑوسی ملک انڈیا کی خفیہ ایجنسی را ملوث ہوسکتی ہے۔‘
ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اس ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا مقصد ربیع الاول کے موقع پر امن و امان کی صورتحال خراب کرنا ہے۔
مرکزی جمعیتِ اہل حدیث کراچی کے امیر مولانا افضل سردار نے جناح ہسپتال میں مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔‘
ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ کون تھے؟
46 سالہ ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ گلستان جوہر میں واقع اہل حدیث (سلفی) مسلک کی جامعہ ابی بکر اسلامیہ کے 2005 سے ناظم و مہتمم تھے۔ جامعہ ابی بکر اسلامیہ کے عملدار مبشر کے مطابق ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ ماڈل کالونی میں واقع اپنے آبائی گھر میں اہلیہ اور دوبیٹیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔
ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ کے انتہائی نزدیکی ساتھی ڈاکٹر فیض الابرار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک سٹڈیز کے سابق اسسٹنٹ پروفیسر محمد ظفراللہ کے صاحبزادے تھے۔
محمد ظفراللہ 1997 میں پنجاب کے شہر رحیم یار خان کے قریب روڈ حادثے میں جان سے گئے تھے۔ حادثے میں ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ کے دو بھائی بھی چل بسے تھے۔
ضیا الرحمٰن نے سعودی عرب کی جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ المعروف مدینہ یونیورسٹی سے اسلامک سٹیڈیز سے 2004 میں گریجویشن کیا۔
ڈاکٹر فیض الابرار کے مطابق ضیا الرحمٰن بن محمد ظفراللہ نے مدینہ یونیورسٹی میں اپنے مقالے کو کتاب کی صورت میں شائع کرایا۔
ڈاکٹر فیض الابرار کے مطابق: ’ضیا الرحمٰن انتہائی شفیق اور ہر ایک سے محبت سے پیش آنے والے انسان تھے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کو غسل دیا، مگر ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔‘