fbpx
ادبی کالم

سرسوتی کا وردان / تحریر : پروین طاہر

انوار فطرت (شخصیت, فن)

 

انوار فطرت
انوار فطرت

بچپن سے سنتے آئے تھے کہ نیک لوگوں سے دُنیا قائم ہے میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے زندگی میں دُنیا کو قائم رکھنے والے بہت سے لوگ ملے جن کی صحبت سے فیض یاب ہوئی ان سے نیکی کرنے کا سلیقہ سیکھاورا زندگی کرنے کی خو سے آشنائی کا موقع ملا. جن میں اعلیٰ انسانی آدرشوں کے لحاظ سے اور شرف انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگوں میں انوار فطرت سب سے آگے ہیں
انوار فطرت شخصی اعتبار سے انتہائی نفیس اور نستعلیق انسان ہیں. انسان کی توقیر بلا امتیاز صنف ان کے خمیر میں شامل ہے. وہ ایک صاحب علم و فن شخصیت ہونے کے باوجود بہت منکسر المزاج اور دھیمے شخص ہیں. وہ دوسروں سے اس طرح ملتے ہیں کہ ان کی صحبت میں لوگ اپنی شخصیت اور ہستی کےمختلف پہلوؤں سے ملاقات کرتے ہیں کیونکہ وہ محفل میں ہوں تو دوسروں کو توجہ سے سنتے ہیں اپنی ہستی اور اپنی خوبیوں کا اعلان بالکل بھی نہیں کرتے وہ لوگوں کو جھک کر ملتے ہیں تاکہ لوگ ان کے سامنے خود کو بلند قامت محسوس کرسکیں وہ کسی محفل میں ہوں تو ان کی شخصیت کی خوشبو سارے میں پھیل جاتی ہے مگر خوشبو کا یہ پھیلاؤ ان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتا…. اذ خود ہوتا ہے
سارا شہر اُن کی ساری مذکورہ خوبیوں کی تصدیق بضد شوق کرے گا کیونکہ جڑواں شہروں میں سب ان کی محبت کے گرویدہ ہیں. شاعروں کی ایک پوری نسل ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہو رہی ہے ہوتی رہے گی. وہ ہم سب کے پیارے "انوار بھائی” ہیں.دوست انہیں مذاق سے جگت بھائی بھی کہتے ہیں(سارے جگ کا بھائی) . ایک بہت پیاری شکل کے مالک. ایک خوش ادا اور خوش گفتار انسان ہونےکے باوجود اللہ پاک نے انہیں کسی سکینڈل,حسن آوارگی کے شاخسانوں اور ہرطرح کی "داستانوں” سے بچائے رکھا. وہ سراپا عجز, انکسار پیکرمحبت دوسروں کے دُکھ پر دلگیر ہو جانے والے شخص ہیں
انوار ایک ذمہ دار صحافی ہونے کے ساتھ ایک بہت قابل ہو میو پیتھک ڈاکٹر ہیں وہ صحیح معنوں میں چا رہ گر لفظ کو توقیر, تعبیر اور تصویر دینے والے انسان ہیں وہ ہفتے اور اتوار کو میلوں دور سے آئے مریضوں کا نہ صرف مفت علاج کرتے ہیں بلکہ اپنی جیب سے دواکا بندوبست بھی کرتے ہیں . چائے کھانے سے ان کی تواضع بھی کرتے ہیں ان کی اس نیکی میں ہماری بھابھی ثمینہ بھی ہرابر کی شریک رہتی ہیں خواتین مریضوں کی علامات نوٹ کرتی اور انوار کو بتا کر دوائی تجویز کرواتی ہیں…. اللہ کےحضور انوارفطرت کی نیکیاں یقیناً مقبول و منظور ہوں گی جبھی تو انہیں سچی شاعری فلسفیانہ, سوچ فکری, گہرائی ودیعت ہو ئی میں نے اپنی کتاب تنکے کا باطن میں انوار بھائی کی لئے ایک نظم شامل کی تھی جو ان کی شخصیت اور شاعری کی مکمل عکاس تو نہیں لیکن ان کی شخصیت اور شعری جمال کی گواہ ضرور ہے.

بھیرویں میا اسے تخلیق کرتی ھے

نہ ھوتا گر یقیں مجھ کو
عناصر اور لہریں
ایک دوجے میں بدل سکتے ھیں
باھم ڈھل بھی سکتے ھیں
تو پھر کیسے یقین آتا
کہ وہ بھی” ھے”
جسے پچھلے پہر راتوں کو
پائیں باغ کے
ویران گوشے میں
سلونی بھیرویں میا
سروں کی آگ پر تخلیق کرتی ھے
وہ جس کو سرسوتی سورگ سے
دھیرے سبک قدموں اتر کر
نظم لکھتے دیکھ کر
جب مسکراتی ھے
تو لفظوں سے
رسیلی راگنی کی
رس بھری آواز آتی ھے
کوئی مہکار آتی ھے!

( پروین طاہر)
وہ میرے انوار بھائی ہیں اور وہ مجھے بھابھی کہ کر بلاتے ہیں کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ میرے میاں طاہر راٹھور سے محبت کرتے ہیں اور محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب "آب قدیم کے ساحلوں پر” کا انتساب طاہر کے نام کیا. میری بیٹیاں ان کی شیدائی ہیں اور وہ انکے بارے میں ہمیشہ ایک ہی جملہ دھراتی ہیں

He looks like a Greek God.
(وہ کسی یونانی دیوتا جیسے دکھتے ہیں)

آ ئیے اب ہم ان کی کچھ نظموں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں .
دوستو انوار بیک وقت ایک با ہوش معاشرے پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے والا ایک aggressive شاعر بھی ہے اور فلسفیانہ سوچ میں گم آب قدیم کے ساحلوں پر بیٹھا بےجہت پہنائیوں کےکنج گم گشتہ میں دود گماں انگیز کے سناٹوں کے پار سانولےجزیروں کے ساحلوں پر وقت کے دریا کی گونج سُنتا اور کہتا ہے.

"میرے خوابوں میں معدوم ہوتے خوابوں کے غول ورد و غیاب کرتے ہیں
اور میری ویران آنکھوں کے مندروں میں
میری نا آسودہ کامناؤں کی
تھکی آتماؤں کےہونٹ
کسی اسم خفی کے ورد میں
لرزاں رہتے ہیں”

(نظم اب قدیم کے ساحلوں پر سے ایک اقتباس)
میں نے ہمیشہ ان کےشعری رویوں کو ان کی دو کیفیات کے حوالے سے categorise کیا ہے (1) آخرشب کی شاعری
(2) روشن دن اوکھلی آنکھ کی شاعری
مجھے ان کی شاعری شاعری کا اولالذکر روپ زیادہ پسند ہے کیونکہ یہ ذات کی باز یافتی کی شاعری ہے. صوفیانہ اپچ اور فلسفیانہ جہتوں کی شاعری ہے. اور بالآخر ایسی ہی شاعری ادب عالیہ کا حصہ بنتی ہے
ایک نظم سے اقتباس
اے عصروں لا عصروں والے!
تیرے جھومتے جھامتے قرنوں کے/ اس لا متناہی الہڑ ریلے میں/ میرا بھی کوئی دن ہے؟
تیرے زمانوں کے یہ آنگن
سدا رہیں آباد
ہم کو کب دائم رہنا ہے
اک دن بس اک دن
(نظم- اک دن بس اک دن)
آب ملاحظہ کیجیے ان کی ایک تلمیحی اور اساطیری نظم سے ایک اقتباس جس کا تعلق باب تخلیق سے ہے. اس نظم میں تخلیقیت کو کو ایک جرات رندانہ سے تخلیق کائنات سے جوڑا گیا ہے. اور فن کار کو خلاق ازل کی فطرت پر بتایا گیا ہے

آٹھویں دن سے آٹھویں دن!
تیرا ساتویں دن سے رشتہ
مجھ سے بندھ نہیں پاتا
چھ دن چھ جہتوں میں
میں تخلیق میں ڈوبا رہتا ہوں,
پانی, آگ, ہوا اور مٹی
جانے کیا کیا کرنا پڑتا ہے
ساتویں دن میں تھک جاتا ہوں
سو جاتا ہوں
سارے کام ادھورے رہ جاتے ہیں.
(نظم چیخ اری او مہا سنکھ کی چیخ)

سات کا لفظ نہ صرف انوار کا تخلیقی تحرک, شاعرانہ عرفان اور نظریہ جمال کا حصہ ہےبلکہ برصغیر کی دیومالا اور انڈوپاک تہذیب کا ایک صوفیانہ استعارہ بھی ہےملاحظہ کیجئے.

آسماں خواب انگیز ہے
سات رنگوں میں بھیگے ہوئے
سات بابوں سے اترے ہوئے
سات خوابوں کی زنجیر کا
حلقہ اولیں آسماں
خواب انگیز ہے..

اسی قبیل کی ایک نظم مرن کام ہے جو مجھے دل سے پسند ہے نظم کا حسن بیس بائیس سال کے بعد بھی نہیں دھندلایا جس میں عالم نزع کو romanticize کیا گیا جب انسان کی آنکھوں کے آگے سرمئی دھند تیرنے لگتی ہے اور آوازیں دور کہیں بہت دور سے آتی سنائی دیتی ہیں

کوئی سپن سمے گھنگھرو سا ہے/کوئی ساگر شانت وشال سا ہے/ کوئی نیا کمل سی نیا ہے
کوئی مدھ ماتی سی پروا ہے/کوئی لہو سگندھ سی پھیلی ہے/ کوئی لاٹ سی تن میں سمائی ہے
کوئی نیا سی دھول برستی ہے/ کوئی آنگن ہے آدھ سویا سا/ کوئی جھانجر سی چھناتی ہے
کوئی بھید بھری سی ریناں ہے
کوئی پگڈنڈی سی غروب میں ہے/کوئی دور صدا سی رقصاں ہے
انوار… انواار… انوااار !

دوستو انوار بھائی کی شعری عظمت کا تقاضا ہے کہ ان کی دوسری قبیل کی نظموں پر بھی بات کروں مگر اس مختصر مضمون میں انوار فطرت کی ان نظموں کے نام لکھوں گی جو بذات خود نظم کا درجہ رکھتے ہیں اور فکر انگیزہیں مثلاً
شہر نامرد سے خطاب…ڈیپ فریزر میں رکھا شہر…. اب میں نویں کالم کا میٹر ہوں… انیس روپے کی نظم…خبر کے علم نگوں ہیں… اور ایسی کئی نظمیں بار بار قرات کے لائق ہیں…
ایک نظم انیس روپے کی عورت سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو
"تو اک ایسی طوائف ہے
جس کے طواف میں
عمریں کٹ جاتی ہیں
لیکن
میں اک شاعر ہوں
میری ہنسی اڑاتی ہے تو…. ؟
میں تو اپنی ذات میں جھلئے
کائنات ہوں
تیری کیا اوقات ہے

انوار فطرت سراپا نظم ہے سراپا تخلیق ہے اس کی نظم ہمیشہ تخلیق کے بلند استھان پر رکھی اور پر کھی جائے گی ان کی شاعری میں برکت اور عظمت یقیناً انسان دوستی, نمرتا, انکسار, درویشی شرف انسانیت پر اعتبار اور اعلیٰ انسانی قدروں کی پاس داری سے آئے گی.

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے