fbpx
تبصرہ کتب

اور چاند سرخ ہو گیا /شہزاد نیّر

(عطیہ سیّد کے ناول پر چند تاثرات)

اب جبکہ دنیا کرونا کے ہلاکت خیز حملے سے کچھ نہ کچھ سنبھل گئی ہے، پیچھے مڑ کر اُن دہشت ناک دنوں پر نظر ڈالنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ کِس کوانکار ہے کہ جس طرح اِس خوف ناک وبا نے دنیا کے ہر انسان کو متاثر کیا، اِس سے پہلے کوئی آفت نہ کرسکی۔ عالمگیر خوف کا سبب اطّلاعات کی فراوانی بھی تھا۔ خوف کو شمار کیا جائے تو گویا کّرۂ ارض کا ہر باشندہ کرونا میں مبتلا ہوا۔

اس عالمی وبا پر برابر ادب بھی تخلیق ہوتا رہا کہ انسان کو درپیش ہر صورتِ حال ، ادب کا سروکار ہوتی ہے۔ اب بھی یہ قاتل وائرس شکلیں بدل بدل کر بستیوں پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔یعنی یہ موضوع حالیہ بھی ہے اور متعلّق بہ انسان بھی۔ ہاں، ہنگامی ادب سے ہٹ کر، اچھے ادب کی تخلیق کے لیے واقعے سے زمانی دُوری درکار ہوتی ہے۔ اب کسی حد تک یہ دُوری ہمیں میسّر ہے۔

عطیہ سیّد نے "اور چاند سرخ ہوگیا” کے عنوان سے ایسا ناول لکھا ہے جو کرونا وبا کے آغاز ، پھیلاؤ اور اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ اس موضوع پر اس سے قبل کوئی مکمل اردو ناول لکھا گیا ہو۔ ناول کا کینوس پوری دنیا ہے۔ عطیہ سیّد نے باب در باب مختلف ممالک میں کرونائی ہلاکت خیزی کو ناول کا جزو بنایا ہے۔ یہ ناول اٹھارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ جب یہ  ابواب کُھلتے ہیں تو ہم ملک در ملک گھوم کر کرونائی تباہ کاریاں دیکھتے ہیں یعنی چین، ایران، امریکہ، اٹلی، پاکستان وغیرہ کے منظرنامے ناول کا حصہ ہیں ۔ اِ س خاصیّت نے ناول کو ایک بینِ الاقوامی کینوس مہیّا کیا ہے۔

چند ابواب کےعنوانات دیکھیے:

ڈیوڈ کی ای میل، عباس اور رضا، ویٹی کن کا محقق، گلوریا، رچرڈسن، مس ڈینیل ، نرگس، حسیب شاہ اور ثمینہ۔ ثمینہ مرکزی کردار ہے۔

ناول کی خوبی یہ ہے کہ قاری جس ملک بھی جاتا ہے، اس کی فضا بندی میں گم ہوجاتا ہے۔ جزئیات نگاری سے سفر نامے کا سا گمان ہوتا ہے۔ ناول نگار کا مضبوط متخیّلہ وہاں کے کردار تخلیق کر کے ہمیں اُن سے ملواتا ہے۔

مرکزی کردار، ثمینہ، پاکستانی اور یونیورسٹی پروفیسر ہے جس کے دوست کئی ملکوں میں ہیں۔ کچھ ایسے کردار ہیں جن کا رابطہ ثمینہ سے تحقیق کے سلسلے میں ہوا تھا۔ انٹر نیٹ کے ذریعے ثمینہ کا اُ ن سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ انہی غیر ملکی کرداروں کے توسُّط سے ناول کی کہانی قاش در قاش آگے بڑھتی ہے۔ یعنی ہر باب ایک نئے ملک کی نئی کہانی لے کر کُھلتا ہے۔ کرونا وہ مرکزی دھاگا ہے۔ جواِن سب حصّوں کو جوڑے رکھتا ہے۔

ناول کے آغاز ہی میں ثمینہ کے گھر پر مینڈک اور پھر چوہے یلغار کردیتے ہیں اس سے ناول نگار نے مشاقی کے ساتھ پیش آمدہ مصیبت کی طرف اشارہ کیا ہے اسی طرح آخری باب میں دیمک حملہ آور ہوتی ہے۔یوں ناول اپنا معنوی دائرہ مکمل کرتا ہے۔

چند فلسفیانہ مباحث ناول کا قابلِ قدر حصّہ ہیں۔ فنا، بقا، وقت، کائنات اور ہستی کے تصوّرات پر گفتگو سے ناول کی فکری سطح بلند ہوئی ہے کرونا وائرس کی خود کلامی بھی خاصے کی چیز ہے۔

میری رائے میں ادبی تخلیق کا اہم ترین جزو، زبان، ہے۔

دب پارے کی زبان محض ادائے مطالب کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی جگہ پر اس کا مقصود بالذّات حصّہ ہوتی ہے۔ عطیہ سیّد نے رواں ، تخلیقی  اور دلکش نثر لکھی ہے۔ انڈر لائن کرنے لائق کئی جملے ہیں۔ فیض و اقبال کی تراکیب (بے مہر صبحیں، سلسلۂ  روز و شب وغیرہ) بے تکلّفی سے استمعال کی گئی ہیں جس سے ناول کی نثر میں شاعرانہ شان پیدا ہوگئی ہے۔

معاصر ناول نگاری میں "اور چاند سرخ ہوگیا” کی اہمیت اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ اس کی فضا مابعد جدید عہد کی ہے۔ کردار اور ان کے رویّے ، میسنجر اور وٹس ایپ، ٹیکسٹ  اور فیس بک، فلیٹ میں رہائش اور لیپ ٹاپ میں سکونت، ایک ایسی بین الاقوامیت جس میں سرحدوں یا حکومتوں کی روک ٹوک کے بغیر روابط وجود پاتے ہیں۔ یہ سب احساسات اور آلات مابعد جدید عہد کا اشاریہ ہیں۔ایسے حصّوں میں ناول کی زبان بھی انگریزی زدہ یا فارسی آمیز ہوجاتی ہے۔ تیز رفتار اطّلاعاتی انقلاب کے باعث دنیا کے عالمی گاؤں میں بدلنے کی تصویر کشی ناول میں موجود ہے ۔ اسی باعث میں نے اسے مابعد جدید بیانیے کا نام دیا۔

کرونا کی وبا کے پس منظر میں لکھا جانا اور عالمی عصری صورتحال سے منسلک  ہونا اس ناول کی اہمیّت کا دوسرا نکتہ ہے۔یہیں سے اس کی انفرادیت بھی متعیّن ہوتی ہے۔

ناول کا نصفِ اوّل، نصف ثانی سے بہتر ہے۔ یوں لگتا ہے نصفِ اوّل محنت اور لگن سے لکھا گیا ۔آخر تک پہنچتے پہنچتے شاید جلدی میں ناول کا اختتام کیا گیا ہے۔ اس حصّے میں کئی جگہوں پر صحافتی انداز، ادبی انداز پر غالب آتا دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کئی بین الاقوامی خبروں کو، بغیر ادبی ٹچ دیے، ناول میں شامل کر دیا گیا ہے  ۔ حسیب شاہ والا باب غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح ناول کا مختلف ٹکڑوں میں بٹا ہونا، سفر نامے اور خود نوشت سوانح کے انداز کا دَر آنا، طویل تر فلسفیانہ مباحث اس کے کمزور پہلو محسوس ہوتے ہیں۔۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے