منتخب کالم

رمضان کا آخری عشرہ/ میاں حبیب


رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی عید کا رنگ غالب آنا شروع ہو جاتا ہے۔ عید کی خریداری کے باعث بازاروں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں، راتیں جاگنے لگتی ہیں، چھوٹی عید پر بڑی خریداری ملبوسات کی ہوتی ہے اس لیے خواتین اور بچے ہر صورت اپنی پسند کے ملبوسات خریدنا لازمی تصور کرتے ہیں اور یہ تقریبا فرض سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر عید پر نئے کپڑے نہ پہنے تو شاید عید نہیں ہو گی۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ خریداری کی دوڑ معاشرے کو مزید تقسیم اور بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہے۔ کئی لوگ بچوں کو عید پر نئے کپڑے خرید کر دینے کی سکت نہیں رکھتے اور اسی پاداش میں دلبرداشتہ ہو کر زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ معاشرے کو چاہیے کہ اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھیں اپنے بچوں کو اگر تین تین چار چار سوٹ خرید کر دے رہے ہیں تو ایک آدھ کسی ملازم یا غریب کے بچے کے لیے بھی خرید لیں دوسروں کو خوشیوں میں شامل کرنے سے جو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے اس کا لطف لیں۔ ایک وقت تھا جب عید ایک نئے جوڑے سے مکمل ہوجاتی تھی آج عید ٹرو مرو تین دنوں کے لیے تین سوٹ تو لازمی قرار دیے جا چکے ہیں۔ خواتین تو ساتھ میک اپ پرس جوتے مہندی اور نہ جانے کیا کچھ لوازمات عید پر فرض کر چکی ہیں۔ جس طرح عید سے قبل فطرانہ دینا لازمی ہے اسی طرح ہمارے معاشرے میں عید سے قبل بہنوں اور بیٹیوں کو عیدی دینے کی رسم بھی فرض کر لی گئی ہے اور اب یہ عیدی کسی منی جہیز سے کم نہیں ہوتی ابھی تو بہت ساری چیزیں متروک ہو چکیں ورنہ ایک زمانے میں عید کارڈ بجھوانا بھی تجدید تعلقات کے لیے ضروری تھا یہ ٹنٹا تو موبائل فون نے ختم کر دیا۔ اب عید کارڈوں کی جگہ عید میسجز نے لے لی ہے۔ جس طرح عید الضحٰی کے موقع پر قصاب وی آئی پی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اسی طرح عیدالفطر پر درزی وی آئی پی بن جاتے ہیں اور بروقت کپڑے سلنے کو خصوصی درجہ سمجھا جاتا ہے۔ ابھی تو ریڈی میڈ ملبوسات نے بہت بڑا بوجھ بانٹ لیا ہے ورنہ بااثر لوگ عید پر درزیوں کو ہائی جیک کر لیتے اور اپنے کپڑے سلوانے کے بعد رہا کرتے لوگ درزیوں کی دوکانوں کے باہر دھرنے دے رہے ہوتے جس طرح اہم لوگوں کے مستقل قصاب ہیں اسی طرح چھوٹی عید کے لیے انھوں نے مستقل درزی رکھے ہوئے ہیں جب مانگ بڑھتی ہے تو ازخود ریٹ بھی بڑھ جاتے ہیں آجکل مٹھائی کے کارخانے دھڑا دھڑ سویاں پھوینیاں اور طرح طرح کی مٹھائیاں تیار کر کے سٹاک کر رہے ہیں، بیکریوں میں کیکس کی نمائش بھی شروع ہو چکی ہے، سپیشل عید کیک تیار کیے جا رہے ہیں۔ ابھی تو اگلے چند دنوں میں ٹریفک پولیس سے لے کر حجام تک ہر کوئی عیدی مانگتا دکھائی دے گا۔ ویسے کمال کا معاشرہ ہے ہمارا۔ مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنے والوں کا بھی میلہ لگا ہوا ہے۔ طاق راتوں میں خصوصی عبادات کے اجتماعات بھی ہو رہے ہیں اور بازاروں کی رونقیں بھی کمال کی ہیں۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں خیراتی اداروں نے بھی پورے سال کا بجٹ اکٹھا کر لیا ہے۔ فائیو سٹار ہوٹلز میں فنڈ ریزنگ کی تقریبات نے ایک نیا کلچر متعارف کروایا ہے۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان تقریبات میں مہنگے کھانے کھلانے والے یہ اخراجات اسی اکھٹی کی گئی زکوٰۃ سے کرتے ہیں یا اپنی جیب سے اور فنڈ ریزنگ تقریبات میں شریک لوگ اپنے دیے گئے عطیات سے کھا رہے ہوتے ہیں۔ ویسے یہ نقطہ وضاحت طلب ہے۔ کسی مفتی سے پوچھیں گے کہ جو بندہ زکوٰۃ یا خیرات دے رہا ہے وہ خود اس میں سے کھانا کھا سکتا ہے؟۔ بہر حال اب تو فنڈ ریزنگ باقاعدہ مارکیٹنگ صنعت بن چکی ہے شہر کی ہر سڑک چوک چوراہا بڑے بڑے اشتہاری بورڈوں سوشل میڈیا ٹی وی اخبارات گلی محلے کی مسجدوں سے لے کر ہر جگہ ایسے اشتہارات کی بھرمار ہوئی نظر آتی ہے جس میں ہر ادارہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ کے عطییات خیرات اور زکوٰۃ کا سب سے مستحق ادارہ ان ہی کا ہے۔ اب تو اس فنڈ ریزنگ اشتہاری مہم میں کھلاڑی فلمی ستارے سیاستدان اور نہ جانے کون کون کود پڑے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے ان اشتہاروں کی مد میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔ کاش معاشرے میں ہر کوئی دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے اس کا مددگار بن جائے تو ایک تو یہ دکھاوا ختم ہو جائے اور دوسرا جو بہت بڑا بھاری سرمایہ اشتہاروں پر خرچ ہوتا ہے اس سرمائے سے مزید لوگوں کی مدد ہو سکے بہر حال یہ بحث طلب معاملہ ہے کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لوگوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے تشہیر بری بات نہیں اور شاید انہی تشہیری مہمات کے باعث پاکستان جہاں بہت ساری خرافات میں دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوتا ہے وہیں عطییات دینے والے ملکوں میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔




Source link

رائے دیں

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button
New currency notes in Pakistan پاکستانی کرنسی نوٹوں کا نیا ڈیزائن شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس پر کل سندھ میں عام تعطیل
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے