یوم پاکستان اور کھوٹے سکے/ محمد نعیم قریشی

یہ خوشی کا لمحہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہم 85ویں یوم پاکستان کو جوش و جذبے کے ساتھ منارہے ہیں،23مارچ 1940کو قرارداد لاہور پیش کی گئی جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے عوام سے جو عہد و پیماں کیے تھے ان کے مطابق ایک آزاد ملک انھیں دے دیا مگر 85سال گزرنے کے بعد بھی شاید لوگ اس دن کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں، 23مارچ کو منایا جانے والا یوم پاکستان ملکی تاریخ میں تمام پاکستانیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان بننے کی تحریک اسی روز 23مارچ 1940کو شروع ہوئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ آج بھی نجانے کتنے ہی لوگ ایسے ہونگے جنھیں اس ملک کی اہمیت اور اس کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذرا سا بھی احساس تو دور کی بات، درست معلومات تک نہیں ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جنھیں یہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر ملی ہے۔ اور جنھوں نے اپنی نسل کے لیے اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے خون بہایا وہ خود تو اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر جن کے لئے انہوں نے ملک حاصل کیا وہ اب تک مسائل کا شکار ہی ہیں۔78سال بعد پاکستان کو ایسا ملک ہونا چاہیے، جہاں امن و سکون کا دور دورہ ہو، لوگوں کو روزگار، انصاف میسر ہو توکیا یہ سب کچھ آج کے پاکستان میں ہے؟ وہ باتیں جو قائد اعظم نے اس ساری جدوجہد میں کی اس ملک کو حاصل کر لینے کے بعد جو پیغام اس قوم کو دیئے میں کچھ ان کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ افسر شاہی کو عوام کا خادم بن کر فرائض انجام دینا ہوں گے۔ میری نظر میں آج بیوروکریسی اور افسران بالا کا عوام و سائلین کے ساتھ جو برتا ہے وہ بھی آپ سب کے سامنے ہے کہ ایک تازہ واقعہ میں سابق کمشنر کوئٹہ کی صاحبزادی نے تلخ کلامی کے بعد نجی ایئرلائن کی ایئر ہوسٹس کو تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کردیا۔ بات صرف یہ تھی کہ مجھے سیٹ بیلٹ باندھنے کا کیوں کہا؟.اس ملک کے خادم کی بیٹی نے خادم کے سامنے غصے میں فضائی میزبان کو اس زور سے مکا مارا جس سے خاتون فضائی میزبان کی ناک سے خون بہنے لگا اور ایک دانت بھی ٹوٹ گیا،جبکہ دوسرے خادمین افسران بالا بھی آج کل جو کچھ کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ ان میں سے ایک تو سڑکوں پر کھڑی عوام الناس کی گاڑیوں سے ہوا نکال رہا ہے چند ایک افطاری کے اوقات میں ریڑھی بانوں سے فی کس پچاس یا سو روپے وصول کررہاہے یا مفت فروٹ ریڑھیوں سے اٹھاکر اللہ کی رضا کے لیے رکھے گئے روزے افطار کررہاہے۔شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتیہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کیقائد اعظم کو ان وقتوں اور آنے والے تمام لوگوں کا شاید علم تھا قائد جانتے تھے کہ میرا اور عوام کا جو اعتماد بھروسے کا رشتہ ہے وہ شاید کوئی دوسرا نہ نبھا سکے،وہ ان تمام کھوٹے سکوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ آج اس ملک کی جدوجہد میں کامیابیوں کے بعد ہمارا دعوی تھا کہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ ہم ڈالرز کی خاطر اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو اسلام دشمن باطل قوتوں کے ہاں گروی رکھ چکے ہیں اور ہم ان قوتوں کو اقتدار کی خاطر سب سے اچھا اور سب سے زیادہ وفادار بن کر دکھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔آج ہر دوسرا شہری انصاف کا منتظر ہے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ شاید میں اس ملک کا سب سے زیادہ متاثرہ شخص ہوں ،کیونکہ جب حکمران اغیار کی خوشنودی میں اپنا وقت صرف کرینگے تو پھر انصاف کی توقع عبث ہے۔اس پاکستان میں کیا نہیں ہے یہاں دنیا کی ہر نعمت ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے قیام پاکستان سے لیکر اب تک حکمران ماسوائے چندایک کے کبھی بھی اچھے نہ مل سکے جو جذبہ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے 85سال قبل تھا وہ آج کے نوجوانوں میں نظر نہیں آتا اور نہ ہی حکمران اس ملک سے مخلص دکھائی دیتے ہیں۔سوال صرف یہ ہے کہ کیا آج پاکستان کرپشن سے پاک ایک مکمل اسلامی ملک ہے۔؟ کیا آج اس ملک میں انصاف ہے یا غریبوں کو روزگار مسیر ہے؟