منتخب کالم

ماہ صیام میں بھی مہنگائی کا جن بے قابو!/ انجینئر ندیم ممتاز قریشی


ہجری سال کا 9 واں مہینہ رمضان المبارک رحمتوں،برکتوں،سعادتوں اور سیادتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ایک طرف اہل عشق نیکیوں اور اعانت کو نئی شکلیں دے رہے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے پوری پاکستانی قوم کو پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے نا صرف شہریوں سے قوت خرید چھین لی ہے بلکہ ان کا جینا بھی دو بھر ہوچکا ہے اس پر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے ساتھ گرانی کو ساڑھے نو سال کی کم ترین سطح پر لانے کے دعوے کیے جارہے ہیں جو کسی طور بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہیں بس حکمران طبقہ اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے گو کہ وفاقی حکومت نے 20 ارب اور پنجاب حکومت نے 30 ارب روپے کی رقم مختص کرتے ہوئے رمضان المبارک میں مستحقین تک نقدی رقم فراہم کررہی ہے مگر اس سے بھی عوام کو خاطر خواہ ریلیف ملتا ہوا نظر نہیں آرہا اس کی بنیادی وجہ مہنگائی میں اضافے پر قابو نہ پانا ہے۔ماہ صیام میں مہنگائی کا حد سے بڑھنا کوئی پہلی بار دیکھنے میں نہیں آرہا بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی قوم کو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یورپ میں تہواروں کی آمد سے پہلے ہی اشیاء کی قیمتوں میں کمی شروع ہو جاتی ہے جو 25 سے 50 فیصد تک ہوتی ہے،یعنی سو روپے کی چیز 50 روپے میں بہ آسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کرسمس اور ایسٹر کے مواقع پر محض مسیحی ہی خریداری کے لیے نہیں نکلتے بلکہ مسیحی ملکوں میں رہنے والے مسلمان اور دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیتے ہیں۔ان ملکوں میں عمومی طور پر امیر اور غریب کے طرزِ زندگی میں خاصا فرق دکھائی دیتا ہے لیکن جب کوئی تہوار آتا ہے تو قیمتوں میں اچھی خاصی کمی معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ریلیف کا باعث بنتی ہے، یوں تہوار کی خوشیاں پورا معاشرہ یکساں طور پر محسوس کرتا ہے۔رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی  قیمتوں میں اضافے کے باعث عام آدمی کے لیے روزہ رکھنا اور افطاری کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور غریب طبقہ، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے،رمضان کے دوران دو وقت کی روٹی کے لیے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔مہنگی اشیاء  کی وجہ سے بہت سے لوگ معیاری کھانے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محدود آمدنی پر گزارا کرتا ہے، رمضان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر اپنی بنیادی ضروریات میں مزید کمی کردیتا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے مستحق افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تاہم گرانی کی اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، تاجر اور عوام مل کر کام کریں۔حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کرے، اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ہر شہر میں ایک فعال پرائس کنٹرول کمیٹی ہونی چاہیے جو قیمتوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات کا فوری ازالہ کرے۔ رمضان کے دوران ہر علاقے میں معیاری سستے بازار قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو مناسب داموں پر معیاری اشیاء  مل سکیں۔تاجروں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں اور نفع کمائیں لیکن ناجائز منافع خوری سے بچیں۔ اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سپلائی کو یقینی بنایا جائے اگر لوگ اپنی ضروریات کے مطابق خریداری کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، تو طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے گا اور قیمتیں کم ہوں گی۔ اگر دکاندار غیر ضروری طور پر قیمتیں بڑھا رہے ہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری نرخوں پر خریداری کریں۔ رمضان کے مہینے میں زکوٰ?،خیرات اور صدقات کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ غریب افراد کی مشکلات کم ہو سکیں۔ان اقدامات سے نا صرف مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے عوام کو درپیش معاشی مسائل اور پریشانیاں بھی کم ہوں گی مگر اس کے لیے زبانی کلامی باتوں اور دعووں کو ایک طرف رکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تب کہیں جا کر یہ سب کچھ ممکن ہوگا۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
New currency notes in Pakistan پاکستانی کرنسی نوٹوں کا نیا ڈیزائن شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس پر کل سندھ میں عام تعطیل
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے