fbpx
منتخب کالم

بہبود کی فلاحی سرگرمیاں/ بلقیس ریاض


کچھ روز ہوئے ادارہ بہبود کی میٹنگ میں بہت پرانی ممبرز…یاسمین اشرف،شمیم ذکریا…اور فرحت احسان کی بہو…سلمیٰ ہمایوں پریذیڈنٹ آف بہبود نے خاص ان کو بلایا ہوا تھا۔
میں جب ہال میں داخل ہوئی تو ایک میز پر بڑے بڑے گلدستے رکھے ہوئے تھے…جن کی مہک سے سارا ہال معطر تھا۔
یاسمین اشرف اور شمیم ذکریا کو ان کی آمد پر گلدستے سلمیٰ ہمایوں نے پیش کئے…اور ممبرز خواتین بھی ان کے ساتھ تھیں…مجھے کسی نے بتایا کہ کافی عرصے سے یہ خواتین بہبود کی ممبرز ہیں… جو وہیل چیئر پر بیٹھی تھیں…ان کو آج خاص مدعو کیا تھا۔ میں ان کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئی کہ اتنے عرصہ سے وہ بہبود کی ممبرز ہیں۔ وہ وہاں بیٹھی خوشی محسوس کر رہی تھیں۔ انہوں نے احسن طریقے سے کام کیا…اور وہ آج تک میمبرز ہیں۔ 
ان کے علاوہ جو اس دنیا میں حیات نہیں… عصمت خالد، منور صادق، ثریا چوہدری، نجمہ قریشی، رافیہ اقبال، طاہرہ، رضیہ معید، مسز کبیر، قرۃالعین عینی…بقول سلمیٰ کے انہوں نے بہبود کیلئے بہت کام کیاتھا۔
اس کے علاوہ ایگزیکٹو خواتین خاور اقبال، الماس بشیر، درمینہ، شمیم، مسرت سعید، اسماء چیمہ، نیلم، روبینہ خان اور اقبال بیگم…یہ سب خواتین سلمیٰ ہمایوں کے ساتھ ان تھک محنت کرتی ہیں۔ ان کا خاص مشن یہ ہے کہ جتنی نیکی اور کام اس ادارے کیلئے کریں کم ہے…تاکہ غریب لوگوں کی مشکلات کم ہو جائیں اور وہ سکھ کا سانس لے سکیں۔
بہبود ایسو سی ایشن کی وجہ سے انسانی بھلائی کیلئے بہت کام ہو رہے ہیں۔ سال میں تین مرتبہ سیل لگائی جاتی ہے۔ جو تین شعبوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
1)انکم جنریشن
2)تعلیم
3)ہیلتھ
غریب بچوں کو سکولوں میں مفت تعلیم دی جا رہی ہے۔ اس ادارے نے غریبوں کیلئے ہسپتال بھی بنایا ہے۔ جس کا آؤٹ ڈور سیکشن قابل داد ہے۔ جہاں مریض صرف پچاس روپے کی پرچی لے کر علاج کرواسکتا ہے۔ مختلف امراض کا علاج کرنے کیلئے تین ڈاکٹرز ہیں۔
نصیرآباد میں سکول کے علاوہ ٹائپنگ سکول بھی ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں…کہ اس ملک کی جتنی آبادی ہے وہاں غربت بھی بہت ہے۔ باقی اداروں کی طرح…بہبود بھی ایسا ادارہ ہے جو لوگوں کی خوشحالی کی وجہ سے قائم ہے۔ سلمیٰ ہمایوں اور ایگزیکٹو خواتین کی محنت سے ایک خاص مقصد کے تحت کام کرتا ہے۔ ایک غریب کس طرح اس غربت اور مہنگائی میں خوش رہ سکتا ہے۔
مہنگائی روزبروز بڑھتی جا رہی ہے… لوگوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں…روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ڈکیتیاں کر رہے ہیں…اچھے پڑھے لکھے لڑکے جاب نہ ملنے پر گمراہی کا شکار ہو کر غلط کاموں میں ملوث ہو رہے ہیں…لیکن جن کو اللہ نے نوازا ہوا ہے وہ غریبوں کی مدد کر رہے ہیں…ان کے دلوں میں خدا خوفی ہے…شاید ان کی مدد کریں تو وہ سکھ کا سانس لے سکیں…لیکن ا ن کی مدد بھی راستے میں جاتے جاتے خرد برد ہو جاتی ہے…اور جانے صحیح پیسہ ان اداروں کو کیوں نہیں پہنچ پاتا… لوگ بے حس کیوں ہو گئے ہیں… مگر اللہ کی ذات سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا…جہاں اللہ کے دربار میں حساب کتاب ہو گا۔ 
 کیا…اس وقت خدا کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دے سکیں گے؟
بہبود کی خواتین جو ان تھک محنت کر رہی ہیں۔ انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ بھرا ہے۔ وہ اپنے ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس طرح باقی کی خواتین جو گھروں میں بیٹھی ہیں اگر آسانی کے ساتھ وہ اس ادارے میں بطور ممبر کام کریں گی تو انسانیت کا بھلا ہو گااور بہت سے گھروں کے ٹھنڈے چولہے جل جائیں گے۔ اگر لوگ اس طرح کے اداروں کوزیادہ چیرٹی دیں گے…اللہ ان کو بہت نوازے گا۔ 
اور دوسروں کی حاجت روائی کی جائے تو اس سے بڑی اور نیکی نہیں ہے۔ اللہ کا فرمان ہے اگر مجھے راضی کرنا ہے تو میری مخلوق کو راضی کرو…اس کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے۔
جتنے بھی صاحب حیثیت ہیں اگر وہ فلاحی ادارے قائم کریں تو اس ملک کی غربت کسی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس قسم کے کام صرف حکومت ہی کر سکتی ہے…آپس کی لڑائی جھگڑوں سے بہتر ہے کہ وہ اس ملک کے بسنے والوں کا سوچیں دوسرے کاموں کے علاوہ یہ اہم کام ہے…اللہ کو راضی کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے