قومی اسمبلی کا گزشتہ روز کا طویل اجلاس مفاہمت کی باتوں ، ایک دوسرے سے شکوے شکایات ،قانون سازی اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے مدرسہ اصلاحات کی تاریخ کے بیان کیساتھ بات چیت کے لیے دروازہ کھلا رکھنے اور میدان میں فیصلہ کی بات کرنے کے باعث اہم رہا، رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کی طرف سے مفاہمانہ طرز عمل کو حکومت کی جانب سے خوشگوار قرار دیا گیا،جی یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کا خطاب بہت ہی اہمیت کا حامل تھا، مدرسہ اصلاحات کا معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسئلے میں بدل رہا ہے،مولانا کی طرف سے موقف ہے مذکورہ ایکٹ بن چکا ہے جبکہ حکومت کا موقف اس کے برعکس ہے اس کا یہ کہنا ہے اس بل کی ازسر نو پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے،یہ دونوں موقف اس بات کے متقاضی ہیں معاملے کو جتنی جلد پارلیمنٹ فورم سے حل کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا، ایوان میں حکومت کی طرف سے بھی تقاریر ہوئی اور اپوزیشن کی طرف سے بھی اظہار خیال ہوا ،ان تقاریر میں مجموعی طور پر مفاہمت کا ذکر ضرور موجود تھا مگر حقیقت یہ ہے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان تلخی اپنی جگہ پر موجود ہے اور اپنا اثر بھی دکھا رہی ہے ،،اپوزیشن کی طرف سے جتنی بھی تقاریر ہوئی ان سب میں حکومتی طرز عمل پر اعتراضات اٹھائے گئے اور حکومتی تقاریر میں ان تمام الزامات کو دہرایا گیا جو اکثر و بیشتر حکومتی رہنماؤں کی نوک زبان پر رہتے ہیں ، مگر پارلیمانی حلقوں کے لیے یہ اطمینان بخش ہے کہ اپوزیشن نے کم از کم اب سنجیدگی سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے فورم کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے،سابق سپیکر اسد قیصر نے استعفیٰ کا ذکر ضرور کیا مگر وہ کچھ اور پیرائے میں تھا۔اسد قیصر سے جھڑپ میں رانا تنویر نے تحریک انصاف کو فاشسٹ قرار دیتے ہوئے کہا انہوں نے تو ہٹلر اور مسولینی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
Follow Us