ناکامی کامیابی سے بڑا سبق دیتی ہے لیکن ہم اس سے سیکھتے نہیں اور پھر یہ استاد بن کر ہمیں تب تک سبق دیتی رہتی ہے جب تک ہم سیکھ نہ جائیں۔ کامیاب لوگ دوسروں کی ناکامیاں سے سبق سیکھ لیتے ہیں کچھ لوگ اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں لیکن کچھ تو ناکامی کی مار کھاتے چلے جاتے ہیں لیکن سیکھتے نہیں۔ عموماً یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں اعتماد ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اور یہی اعتماد کی زیادتی انھیں یہ سمجھنے ہی نہیں دیتی کہ وہ کیا غلطی کررہے ہیں۔ یہ سب باتیں ذہن میں آئیں تحریک انصاف کی سول نافرمانی کے اعلان سے۔ دس سال قبل اگست 2014ءمیں جب عمران خان آزادی مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے تو انھیں لگ رہا تھا یا پھر انھیں ایسا نے بتایا گیا تھا کہ انکے دارالحکومت میں داخل ہونے سے پہلے ہی حکومت چلی جائے گی۔ ایسا تو نہ ہوا اعلان وہ دھرنے کا کر چکے تھے۔ اور کارکنوں کو ایسا ہی کہہ کر بلایا گیا تھا لیکن اسلام آباد پہنچ کر زور دار تقاریر ہوئیں اور آخر میں اعلان ہوا کہ کل اسی وقت اسی جگہ ملیں گے۔ قائدین تو سفر کی تھکاوٹ دور کرنے اپنی رہائش گاہوں میں چلے گئے لیکن دھرنے کے لیے لائے گئے کآرکنوں نے اسلام آباد کی گرین بیلٹس پر رات گزاری۔ اس وقت تک پارٹی کے کچھ قائدین کو احساس ہوچکا تھا کہ وہ جو سوچ کر آئے تھے ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا حکومت کم از کم فوری تو کہیں نہیں جارہی۔ اور اسی پریشانی میں تحریک انصاف نے اپنے کارڈز جلدی جلدی کھیلنے شروع کردیے چوبیس، اڑتالیس گھنٹوں کی ڈیڈ لائنز نے کام نہیں کیا تو سول نافرمانی کا اعلان کردیا، بل جلا ڈالے لوگوں کو بل دینے اور باہر سے بینکوں کے ذریعے پیسے بھیجنے سے منع کردیا پھر ریڈ زون کی جانب مارچ کیا پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر چڑھائی ہوئی اور 126 دنوں کے بعد آج ہی کے دن دھرنا ختم کردیا گیا۔ وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے کے لیے آنے والوں کو استعفیٰ ملا نہ دھاندلی ثابت کرنے میں کامیابی ہوئی اور عدالتی کمیشن نے منظم دھاندلی کے تمام تر الزمات کو مسترد کردیا۔ اس دھرنے سے کیا حاصل ہوا؟ فیس سیونگ کے لیے کہا جاتا رہا کہ عوام کو شعور ملا۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا سبق تھا۔ صرف تحریک انصاف کے لیے ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے۔ اس کے بعد آنے والے سالوں میں لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ احتجاج کیے سبھی نے اس ناکام آزادی مارچ کے نتائج کو بھی مدنظر رکھا اگر کسی نہیں سبق نہیں سیکھا تو وہ تھی تحریک انصاف کیوں کہ انھوں نے بعد میں بھی ویسا ہی سب کچھ کیا جس میں وہ ناکام ہوچکے تھے۔ لانگ مارچ کیے دھرنے کے اعلانات ہوئے۔ سب نے سمجھایا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کے ساتھ اگر آپ کا لانگ مارچ اور طویل دھرنا کامیاب نہیں ہوا تو اب کیا حاصل ہوگا۔ لیکن ان کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ اور سب سے حیران کن تھا سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان۔ دس سال پہلے جب ایک سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا گیا۔ بل جلا دیے گئے کچھ عرصے کے بعد جب عمران خان کے گھر کا بل سامنے آگیا تو خان صاحب نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو ٹھنڈے پانی سے نہا سکتے ہیں ان کی فیملی کیسے گزارا کرسکتی ہے۔ بات تو درست ہے۔ اب بھی اگر سول نافرمانی ہوتی ہے تو بل ادا نہ کرنے والوں کے میٹر کٹ جائیں گے پھر کیا ہوگا وہ جرمانے کے ساتھ نیا میٹر لگوائیں گے؟ جو سرکاری ملازم کام نہیں کریں گے ان کی نوکری چلی جائے گی پھر کیا ہوگا؟ بیرون ملک پاکستانی رقوم نہیں بھیجیں گے تو یہاں ان کے گھر والے کیا کریں گے؟ یہ سوال تو ذہن میں آتے ہیں لیکن عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ان کو ایسے کارکن ملے ہیں جو یہ سب سوال نہیں پوچھتے ایسا کچھ نہیں سوچتے۔ پارٹی قیادت میں بہت سے لوگوں کو اس سب کا احساس ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بقول چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر، عمران خان باس ہیں باس تو حکم دیتے ہیں۔ اب یہ حکم تو آگیا اور سب پھنس گئے کریں تو کیا کریں حکومت کو چور ڈاکو، فارم 47 والے اور ان سے بات کسی صورت نہ کرنے کی باتیں کرنے والے اب غیر مشروط مذاکرات کی ہیشکشیں کرنے لگے۔ دراصل اس کی وجہ اسی سول نافرمانی جیسے اعلانات واپس لینے کے لیے فیس سیونگ مانگنا ہی تھا۔ تو مسئلہ یہی ہے کہ تحریک انصاف نے غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا وہ ایک غلطی کرکے دہراتے چلے گئے اور اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ وہ کوئی بھی اعلان کرتے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے بسم اللہ کریں کیونکہ سبھی جان گئے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا لیکن حیرانی یہ ہے کہ تحریک انصاف یہ سب سمجھ نہیں پارہی۔
Follow Us