fbpx
منتخب کالم

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند / کوثر لودھی

آج سے بیس پچیس سال پہلے جب عمران خان کو لیڈر بنانے کے لئے بساط بچھائی گئی تھی اس میں کتنے لوگوں نے خان صاحب کی شخصیت کے بارے میں اپنی رائے دی ہو گی۔ شاید کہ پالیسی سازوں کے تہہ خانوں میں یہ بات کہیں درج ہو، ہمارے ہاں ہمیشہ بڑے بزنس مین اور بڑے گھرانوں کے لوگ ہی سیاست میں آتے ہیں اور لائے جاتے ہیں۔ کبھی کسی شخص پر اتنی پلاننگ ایک کھلاڑی سے سیاستدان بنانے میں صرف نہیں ہوئی جتنی کہ عمران خان پر ہوئی اور پھر تحریک انصاف کے جنم  سے  2011 کے کھڑکی توڑ جلسے اور عمران کے 2014کے دھرنوں سے لے کر عمران خان کی حکمرانی تک اور پھر حکمرانی ختم ہونے سے لے کر اب تک نجانے کتنے ہی جرنیلوں کے نام آتے ہیں جو تحریک انصاف کی آبیاری کرتے رہے لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عمران خان جب کرکٹ کے میدان میں نمایاں کھلاڑی ثابت ہوئے تھے اور انہیں پاکستان ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا تو وہ کس قدر اپنے ساتھیوں کو گالیاں دیتے تھے اور اس بات پر بہت زیادہ برہم ہوتے تھے کہ انہیں انگریزی بولنی کیوں نہیں آتی۔  خواہشات کے غلام عمران خان نے اپنے حجلہ عروسی میں جو پہلی خاتون کو جگہ دی وہ ایک یہودی نڑاد دنیا کی امیر ترین خاتون جمائما خان تھیں جب کہ کاغذات کے مطابق تیسری حجلہ عروسی میں آنے والی خاتون پاکپتن کے سیاسی خاندان کی بہو عمر رسیدہ معروف پیرنی بشری بی بی تھیں جن کے پاس دولت نہیں بلکہ بقول عمران خان کے اقتدار کی چابی تھی اور انہوں نے خاور مانیکا سے طلاق لیتے ہی عمران خان سے گھونگھٹ اٹھانے کی قیمت ہی خاتونِ اول کا اعزاز مانگ لیا اور عمران خان نے بخوشی قیمت ادا کرنے کی حامی بھر لی۔ کیا آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھا ہوا کپتان جس نے ورلڈ کپ جیتا اس میں بھی جادو کا کمال تھا یا ان کی اپنی محنت اور قسمت میں لکھی کامیابی تھی مگر تہمات کی دنیا میں قدم رکھتے ہی گویا وہ ہر چیز کے حصول کے لئے بشری بی بی کے جنات و موکلات پر انحصار کرنے لگے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انہوں نے خود کچھ کرنا ہی نہیں ہے، جو کریں گی وہ غیبی طاقتیں ہی کریں گے، ایسے ہی کسی کمزور لمحے میں وہ اللہ وحدہ لاشریک کی غیبی طاقت کو بھول گئے اور ان کو اقتدار میں لانے والی دنیا میں اصل قوتوں کو ناراض کر بیٹھے اور انہی قوتوں نے انہیں تخت سے اتارا، وہ ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوئے کہ بشری بی بی کی غیبی طاقتیں کدھر گئیں؟ بلکہ وہ اب تک انہی طاقتوں کے بل بوتے پر پوری دنیا میں اپنے لوگ بٹھا کر، کے پی کے میں گنڈہ پور کو بٹھا کر بشری بی بی سے ہی دوبارہ اقتدار تک پہنچنے اور پھر سب سے انتقام لینے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے جیل سے فائنل کال دھرنے کی دی کہ کفن ساتھ لائو اور لاشیں گرائو۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ دیگر سیاستدانوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیں۔ انہوں نے کبھی فوج سے معافی مانگنے کا نہیں سوچا کہ جیل سے باہر آجائیں۔ انہوں نے جو غلطیاں کیں اس پر ایک لمحے کے لئے بھی نادم نہیں ہوئے بلکہ ہر بار ایک نئی فرمائش اپنے چاہنے والوں کے آگے پیش کر دیتے ہیں وہ نہ صرف فوج کو اپنے قدموں میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں بلکہ خود جیل کی سلاخوں سے باعزت طور پر تاحیات وزیراعظم بننے کے لئے لاشوں کے بھی طلبگار ہیں اور اس کے لئے بھی انہیں بشری بی بی کے موکل اور جنات چاہیں جو ڈی چوک پہنچ کر لاشوں کے انبار لگا دیں۔ یقین مانیے ان کی اب بھی امیدیں ساری کی ساری سابق خاتونِ اول ہی سے ہیں، اگر ان کی تمام پارٹی قیادت بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردے تو انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ حصول اقتدار جیل میں بیٹھے مجرم اور ملزم کی پہلی اور آخری خواہش ہے اور فوج کے تازہ دم جرنیل اور اپنے پیشرو کی ذہانت پر پشیمان ہیںکیونکہ اب فوج کے گملے میں پرورش پانے والا کھلاڑی لاشوں کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہے اور کھیلنے کے لئے چاند مانگ رہا ہے۔ ملک میں چاروں جانب شاہراہوں پر، چوکوں پر” بدروحوں ”کا ڈیرہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے 24 کروڑ عوام اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804 کے آگے رکھا چارہ ہیں۔ کسی کو سڑکیں بند ملتی ہیں تو کوئی انٹرنیٹ کی بندش کے ہاتھوں پریشان ہے۔ عمران خان کے حمایتی اس بات پر خوش ہیں کہ دیکھو بانی پی ٹی آئی نے جیل میں بیٹھ کر بھی سب کو پریشان کر رکھا ہے!!




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے