”بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے بعد روح الامین ہمارے دَور میں اردوکا جھنڈا بلند کیے جس محبت کا نعرہ لگا رہے ہیں اس کے بارے میں پروفیسر فتح محمد ملک کہتے ہیں : ”سیّد روح الامین ہماری قومی زبان اردو کے سچّے اور پکے عاشق ہیں۔ اردو زبان پر اس وقت جو پیغمبری کا وقت ہے اس میں روح الامین کی یہ کاوشیں بند دروازوں پر دستک ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز ادارے جس طرح اردو کوختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس دَور میں روح الامین کا یہ کام جہاد کادرجہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی رائے میں :
”انھوں نے (روح الامین نے) اپنی کاوشوں میں بڑی دِقتِ نظر کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ سیّد روح الامین نے اردو کے لیے ایک مکتبہ محبت کھول لیا ہے۔“
ممتازافسانہ نگاراور محقق ڈاکٹر رشید امجد کا درج بالا اقتباس سیّد روح الامین کی خدمات کے حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والی لیفٹیننٹ کرنل (ر) سیّد احمد ندیم قادری کی کتاب ”سیّد روح الامین۔ فروغِ اردو کے لیے خدمات“ سے لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد کے روح الامین کے بارے میں یہ الفاظ مبنی برحقیقت ہیں۔
بلاشبہ سیّد روح الامین عصرِ حاضرمیں اردو کے حوالے سے ایک توانا آواز ہیں۔ تین دہائیوں سے میں اردو کے حوالے سے سیّد روح الامین کے کالم دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں۔ انھوں نے اپنی زندگی لگتا ہے اردو زبان کی خدمات کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ یہ ایک قومی خدمت ہے۔ سیّد صاحب کی اردو کے حوالے سے 22کتب شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تو اداروں کے کرنے کا کام ہے جو روح الامین تنہا بڑی محبت وخلوص کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ سیّد روح الامین کی اِن کتب کے بارے سبھی ممتاز دانشوروں نے خوب داد دی ہے۔ کم و بیش 13ایم۔ فل اور ایم۔ اے اردو کے مقالات ان کی کتابوں کے بارے میں لکھے جا چکے ہیں۔
بلاشبہ بانی پاکستان قائد اعظم نے بار بار ارشاد فرمایا تھا کہ نئی مملکت میں قومی و سرکاری زبان اردو ہو گی۔ پھر 1971ءکے آئین میں بھی لکھا گیا کہ پندرہ سال تک یعنی 1988ءتک اس کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ لیکن افسوس دوسرے وعدوں کی طرح اِس آئینی دفعہ پر عمل درآمد بھی ہماری منافقت سے دوچارہو گیا۔ حکمرانوں کے اس رویّے اور عدم دلچسپی کا ہماری قومی یک جہتی پر برا اثرپڑا۔ معاشرے میں انتشار اور بے چینی کی سی صورتِ حال دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اگراردو کا نفاذ ہو جاتا تو آج صوبائیت اور علاقائیت کا چرچا ختم ہوجاتا۔ قومی ہم آہنگی اور یک جہتی کے لیے خطرہ نہ بنتے، دشمن کو اس آڑ میں قومی سلامتی میں نقب لگانے کا موقعہ نہ ملتا۔
”سیّد روح الامین۔ فروغ اردو کے لیے خدمات“ کی طباعت دیدہ زیب ہے اور اسے عزت اکادمی گجرات نے شائع کیا ہے۔ رنگین تصاویر کے ساتھ انتہائی خوبصورت کاغذ پرشائع کی گئی ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) سیّد احمد ندیم قادری جو کہ ’نوائے وقت‘ کے چیف آپریٹنگ آفیسر بھی ہیں، بجاطور پر تحسین کے حق دار ہیں جنھوں نے سیّد روح الامین کی خدمات کے بارے اِن بکھری ہوئی تحریروں کو یک جاکر کے کتابی صورت میں چھاپ دیا ہے۔ کتاب کا دیباچہ پروفیسر فتح محمدملک نے ”دلدادہ اردو“ اور پیش لفظ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ”ایک ’دیدہ ور‘ اور ’دلدادہ“ کے عنوانات سے لکھے ہیں۔
ڈاکٹر عقیل نے روح الامین کو ”فرزندِ اردو“ اور ”فنا فی الاردو“ کے القابات سے نوازاہے۔ پروفیسرفتح محمدملک بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ دعاہے کہ سیّد روح الامین صاحب اپنے مشن میں کامیاب ہوں تاکہ قوم کوبھی اپناحقیقی تشخص مل سکے …. آمین ثم آمین!
میں محترم المقام سیّد روح الامین صاحب کو اور ان کے بارے میں کتاب مرتب کرنے پر لیفٹیننٹ کرنل (ر) سیّد احمد ندیم قادری صاحب دونوں کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ برادرانِ پاکستان آپ کے شکرگزارہیں۔ آخر میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے دعائیہ الفاظ جو کہ انھوں نے سیّد روح الامین کے لیے ”کتابِ سپاس“ کے ابتدائیہ میں تحریر فرمائے۔ اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کو غریقِ رحمت فرمائے:
”میں دعا کرتا ہوں کہ سیّد روح الامین کاقلم اِسی طرح رواں دواں رہے وہ ادب کے میدا ن میں تیزی سے قدم آگے بڑھاتے رہیں۔ میں یہ بھی دعا کرتاہوں کہ اللہ ان کے تواناقلم کو نظرِ بَد سے بچائے۔ آمین‘!!
Follow Us