پیر کے روز ایوان زیریں کے اجلاس میں حکومت نے حزب اختلاف کے احتجاج، ہنگامہ آرائی اور لڑائی جھگڑے کے دوران ایوان سے چار اہم نوعیت کے بلز منظور کروا لئے۔ بظاہر یہ قانون سازی حکومتی اتحاد کے مستقبل کو لاحق خطرات کے سد باب کے طور کی گئی ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ حکومت کا یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ26 ویں آئینی ترمیم سے انہیں مکمل ریلیف نہیں ملا ہے اور عدلیہ کی جانب سے سول حکومت کے معاملات میں مداخلت کے امکانات اب بھی جوں کہ توں موجود ادھر قومی اسمبلی میں قانون سازی کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے حکومتی اتحادکی کی قانون سازی جس میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد دوگناہ بڑھانے، آرمی چیف سمیت دوسروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے پانچ سال کرنے کی منظوری اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل پر لب کشائی کی کوشش کی تاہم پی ٹی آئی کے نوجوان ارکان نے ان کی ایک نہ سنی اور قیدی نمبر 804کی گردان میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ بیرسٹر گوہر کو کوئی تعمیری اور مثبت تنقید ہی نہ کرنے دی اور حکومت کو بھرپور موقع فراہم کیا کہ وہ کثرت رائے سے اپنے بل منظور کروا لے ۔ آج منگل کو ہونے والے اجلاس میں اس بات کا امکان ہے کہ حکومت انسداد دہشتگردی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم بھی منظور کروائے جس کے ملکی سیاست اور حکومت کی مخالفت کرنے والوں پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
پارلیمانی ڈائری
Follow Us