شیخ سعدی شیرازی فارسی ادب کے عظیم شاعر، ادیب اور صوفی تھے جنہوں نے اپنی تحریروں میں زندگی کے پیچیدہ مسائل کو سادگی اور حکمت کے ساتھ بیان کیا۔ ان کی مشہور کتاب کریمہ میں نثر اور شاعری کے ذریعے اخلاقی، روحانی اور سماجی موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کریمہ کا مواد انسانی زندگی میں خدا سے تعلق، اخلاقی اصلاح، اور معاشرتی مسائل پر غور و فکر کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس کتاب میں موجود شاعری اور نثر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو اپنے خالق کے قریب لانے کی ترغیب دیتی ہے اور دنیاوی جھمیلوں سے بلند ہو کر اللہ کی رضا کی جستجو کرنے پر اکساتی ہے۔
شیخ سعدی کی تحریریں انسانی فطرت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں اور خدا کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ان کی شاعری میں خدا سے محبت اور تعلق کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں خدا کی حمد و ثناء کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے جس میں عاجزی، انکساری اور شکرگزاری کا جذبہ جھلکتا ہے۔
آج کے دور میں، جہاں شاعری کا رجحان زیادہ تر دنیاوی موضوعات کی طرف مائل ہو چکا ہے، شیخ سعدی جیسے شعرا کی شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل عظمت اور سکون خدا کی قربت میں :
برگ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار
ترجمہ:
(ہوش مند انسان کی نظر میں درختوں کے سبز پتے ہر پتہ خدا کی معرفت کا دفتر ہے۔)
اس شعر میں شیخ سعدی ہمیں قدرت کی نشانیوں میں خدا کی موجودگی کو محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ انسان اگر غور کرے تو ہر چیز میں خدا کی عظمت اور حکمت کو دیکھ سکتا ہے۔ سعدی کے اس شعر سے یہ درس ملتا ہے کہ انسان کو ہر چیز میں خدا کی موجودگی اور اس کی قدرت کو پہچاننا چاہئے۔
ای کہ پنجاہ رفت و در خوابی
مگر این پنج روزہ دریابی
ترجمہ:
(اے وہ شخص جس کی عمر پچاس سال گزر چکی اور اب بھی سویا ہوا ہے،کیا تم اس پانچ روزہ زندگی کو نہیں سمجھ سکتے؟)
یہ شعر ہمیں زندگی کی فانی حقیقت کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ شیخ سعدی یہاں انسان کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے اور اصل زندگی آخرت کی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں خدا کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔آج کی اردو شاعری میں، خاص طور پر نوجوان نسل کی شاعری میں، خدا کے ذکر اور روحانیت کا عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔
موجودہ دور میں زیادہ تر شاعری محبت، غم اور دنیاوی کامیابیوں کے گرد گھومتی ہے اور خدا کی یاد کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ نوجوان شعرا زندگی کے تلخ حقائق اور معاشرتی مسائل پر تو بات کرتے ہیں، لیکن روحانی پہلو کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ شیخ سعدی کی شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شاعری کا اصل مقصد ہمیں خدا کے قریب لانا ہے اور اس کی رضا کو پانا ہے۔
اگر آج کی اردو شاعری خدا کی قربت اور روحانی موضوعات کی طرف توجہ دے تو یہ نوجوان نسل کو زیادہ مثبت اور روحانی انداز میں سوچنے پر مجبور کرے گی۔ شاعری کو صرف دنیاوی معاملات تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے ایک ذریعہ بنانا چاہیے جس کے ذریعے ہم اپنی اصلاح کر سکیں اور خدا سے اپنے تعلق کو مضبوط کر سکیں۔ شیخ سعدی کی شاعری اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کیسے ایک شاعر اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کو خدا کی یاد دہانی کروا سکتا ہے اور انہیں دنیاوی غم و فکر سے بلند کر کے روحانی اطمینان کی طرف راغب کر سکتا –