تصور کریں کہ دنیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپ میں ایک قیدی ہونے کے ناطے آپ کو غیر مواصلاتی اور موت کے مسلسل خوف میں رکھا جا رہا ہو۔ یہ بھی تصور کریں کہ جہاں مواصلات کا کوئی ذریعہ نہ ہو، انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہو اور ہنگامی طبی امداد حاصل کرنے کے قابل نہ ہو۔ کینیڈا میں رہنے والے اور ترقی کی منازل طے کرنے والے ہر فرد کے لیے یہ ایک وحشت اور ڈرائونی فلم کا سامان ہوگا لیکن بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاکھوں کشمیریوں کے لیے یہ روزمرہ کی حقیقت ہے۔ ہندوستان جو کہ انسانی حقوق کا خود ساختہ محافظ اور چمپئن بنتاہے، دنیا کے سامنے یہ ثابت کر رہا ہے کہ کثیرالجہتی اور تنازعات کا پرامن ذرائع سے تصفیہ اس کے لئے بہت مشکل اور خطرناک ہے۔ قابض ریاست کو اپنے قیدیوں کا شکار کرنے کے لیے ایک جادوگر کی طرح آزاد ہونا چاہیے اگر وہ یہ محسوس کرے کہ اس کی آبادی بہت زیادہ ہے یا تجارتی لحاظ سے بہت اہم ہے تو اس پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شیخی خوری اور شان و شوکت کے فریب نے عالمی امن کو تباہ کیا ہے۔ اگر بھارت کا کشمیریوں پر جبر اور پاکستان کے خلاف جارحیت اور پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی مسلسل کال کے حوالے سے اس کی عدم توجہی دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان تصادم کا باعث بنتی ہے تو اس کے اثرات کو سمجھنے کے لیے کسی کو آئن سٹائن بننے کی ضرورت نہیں ہے۔کشمیر کی ہنگامہ خیز تاریخ کی بازگشت وادی میں گونجتی رہتی ہے۔ خودمختاری اور حق خود ارادیت کے وعدوں کے باوجود کشمیریوں کے حقوق کو مسلسل سلب کیا جا رہا ہے اور ان کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ؛ ہزاروں نوجوانوں کی جبری گمشدگی؛ عصمت دری کا جنگ کے ایک آلہ کے طور پر استعمال؛ اور من مانی نظر بندیوں سے، بھارت نے کسی بھی غیر کشمیری کے لیے مقبوضہ علاقے میں رہائش اختیار کرنے اور جائیداد خریدنے کو ممکن بنا کر بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی جغرافیائی آبادی کا ڈھانچہ دوبارہ تبدیل کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 35 (A) کو منسوخ کرنا چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49کی واضح خلاف ورزی ہے۔ بھارت کے ایک سیکولر ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے ان اقدامات سے چکنا چور ہو گئے ہیں کیونکہ 1989 سے اب تک 96 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک کئے جا چکے ہیں اور 7000 سے زائد حراستی ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔ ہزاروں کشمیری لاپتہ ہو چکے ہیں۔لاکھوں ٹارچر چیمبرز سے گزر چکے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گن سے اندھا کر دیا گیا ۔ ہزاروں بے گناہ نوجوان لڑکوں کو من مانی طور پر حراست میں لیا گیاجبکہ مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے دبا دیا گیا ہے۔ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا جبکہ انہیں تذلیل اور دھمکیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 05 اگست 2019 کو اور اس کے بعد مودی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کے بعد کشمیر کا تنازعہ عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقے میں مسلسل فوجی محاصرے کی وجہ سے انسانی حقوق کی سنگین صورتحال اور پاکستان کی سخت کوششوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو 50 سال سے زائد عرصے کے بعد پہلی بار کشمیر پر اپنا اجلاس تین بار منعقد کرنے پر آمادہ کیا۔بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور آبادیاتی جغرافیائی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد، خطے اور پوری دنیا میں مستقل امن کو یقینی بنانے کے لیے تنازعہ کشمیر کا حل زیادہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے ظلم کی سست رفتار لیکن مسلسل سونامی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بے بس کشمیری دنیا سے اس خونریزی اور عدم برداشت کی اس بد مستی کو ختم کرنے کے لیے سنتے رہتے ہیں۔ پاکستان ایک پرامن حل کی امید اور کوشش کرتا ہے۔ آئیے ہم عقلیت اور انسانیت کو تقویت دیں اور ان لوگوں کے بیانیے کو مضبوط نہ کریں جو تنازعات کے حل کے لیے تشدد کی حمایت اوراس کا پرچار کرتے ہیں۔
؎