مریم نواز:نیب کے عقوبت خانے سے اناطولیہ / سیف اعوان

سیاست کے شعبے میں اپنی منفرد پہچان بنانا مشکل ترین کام ہے۔اس سے بھی مشکل کام اپنے ووٹر، سپورٹر اور عوام کے دلوں میں جگہ بنانا کسی بھی سیاستدان کے لیے بڑا ٹاسک ہوتا ہے۔سیاسی بیانات سے وقتی طور پہ اپنی پہچان تو بنا سکتے ہیں لیکن عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے۔ عوام کی اعتماد پر پورا اترنے کے لیے پہلی شرط ہی ڈلیور کرنا ہوتی ہے۔ جب کوئی لیڈر یا سیاستدان ڈلیور کرتا ہے تو اس کے ووٹر، سپورٹر اور عوام اس پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر عوام کا درد رکھنا اور دن رات عوام کے ہی قصیدے پڑھنا بہت آسان بات ہے لیکن حکومت میں آکر عوام کی مشکلات حل کرنا اور ان کو ریلیف دینا یقینا ایک مشکل ترین ٹاسک ہے۔ مریم نواز نے جن حالات میں سیاست میں قدم رکھا وہ ان کے لیے مشکلات سے بھرپور دن تھے۔ ان دنوں عدالتی پیشیاں اورجیلیں ان کے لیے معمول کی بات بن چکی تھی۔ میڈیا ٹرائل،سوشل میڈیا پر کردار کشی پر مبنی مہم،سیاسی مخالفین کی جانب سے الزامات کی بھرمار نے مریم نواز کو ایک مضبوط اور حوصلے والی بیٹی بننے کی ہمت پیدا کی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مریم نواز کا سیاسی قد بڑھتا گیا اور وہ مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہوتی گئی۔ جو مریم نواز کل تک نیب کے عقبت خانے میں مشکل ترین دن گزار رہی تھی آج وہی مریم نواز ترکیہ کے شہر اناطولیہ میں انٹرنیشنل فورم سے خطاب کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے ڈپلومیسی فورم سے خطاب کے دوران اپنے مخالف کا جیل سے اے سی اتروانے یا اس پر مزید سختی بڑھانے کی باتیں نہیں کی بلکہ ان کی تقریر کا فوکس پنجاب کی عوام خصوصا خواتین اور بچے تھے۔مریم نواز کی تقریر کا ایک بڑا حصہ شعبہ تعلیم سے متعلق تھا۔تعلیم کے شعبے میں مریم نواز نے انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اقدام 30 ہزار بچوں کو سکالرشپ دینا ہے۔ جن بچوں کو یہ سکالرشپ ملے ہیں۔ ان کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے ہے۔مہنگائی کے اس دور میں مڈل کلاس والدین کے لیے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوانا مشکل ہو چکا تھا۔ مریم نواز نے 30 ہزار بچوں کو نہیں 30 ہزار خاندانوں کواسکالرشپ دے ہیں۔ یہی بچے آنے والے وقت میں اچھی تعلیم حاصل کر کے اپنے والدین کا بڑھاپے میں سہارا بن سکتے ہیں۔ مریم نواز نے 27 ہزار طلبہ و طالبات میں الیکٹرک بائکس تقسیم کی ہیں تاکہ وہ آسانی سے اپنی تعلیمی اداروں میں ان الیکٹرک بائکس پر پہنچ سکیں۔ مریم نواز پنجاب کے بچوں کو ماں کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں۔ مریم نواز نے سکالرشپ دینے کی متعدد تقریبات میں بچوں کے ساتھ جو گفتگو کی ان کی تمام تقریروں کا محور ماں اور بچے کے گرد ہی گھومتا رہا۔ وہ پنجاب کے بیٹے بیٹیوں کی ایسے ہی تربیت کرنا چاہتی ہیں جیسے وہ اپنے بیٹے جنیداور بیٹی ماہ نور کی تربیت کر رہی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مریم نواز انقلابی اقدامات کر رہی ہیں۔ ان کے منصوبے فائلوں کی نظر نہیں ہوتے بلکہ گراونڈ پہ نظر آرہے ہیں۔ مریم نواز پنجاب کے ہسپتالوں کی تیزی کے ساتھ ریمپنگ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے۔ رواں سال کے آخر تک نواز شریف کینسر ہسپتال لاہور کے پہلے فیس کی تکمیل کا ہدف دیا گیا ہے جبکہ سرگودھا میں نوازشریف کارڈیالوجی ہسپتال پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔جس کا اگلے دو سے تین ماہ میں باقاعدہ افتتاح خود مریم نواز کریں گی۔ مریم نواز نے صحت کے شعبے میں نمایاں اقدامات کیے ہیں۔ ان میں کینسر،ہیپاٹائٹس اور ٹی بی کے مریضوں کی مہنگی ترین مفت ادویات ان کے گھروں تک فراہمی، فیلڈ ہاسپٹل کا قیام، کلینک آن ویلز شروع کیے جو کامیابی سے آج لاکھوں لوگوں کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ مریم نواز ہیلتھ کلینک جو بی ایچ یو میں کامیابی سے جاری ہیں۔جہاں ینگ ڈاکٹروں کو بڑی تعداد میں نئی نوکریاں بھی ملی ہیں۔ صحت اور تعلیم کے دو شعبے ایسے ہیں جن سے کسی بھی قوم کی دنیا میں نمایاں پہچان ہوتی ہیں اسی لیے مریم نواز کا فوکس ان دو شعبوں پر سب سے زیادہ ہے۔ مریم نواز نے ڈپلومیسی فورم سے جو تقریر کی اور اپنا ویڑن کئی ممالک کے مندوبین کے سامنے رکھا اس کو شرکاء_ کی جانب سے خوب سراہا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔مریم نوازکے لیے ان کے والد نواز شریف اور شہباز شریف کی کارکردگی رول ماڈل ہے۔ وہ انہی دونوں کو فالو کرتے ہوئے اپنا طرز حکومت چلا رہی ہے۔مریم نواز پہلی مرتبہ کسی بڑے انتظامی عہدے پر فائز ہوئی ہیں لیکن ان کے طرز حکومت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم نواز شریف کا ویڑن ان کے منصوبوں میں نظر آرہا ہے۔