سائرہ طاہر کا دعوت نامہ ملا…کارڈ پر لکھا ہوا تھا اس سال ایک نئے عزم کے ساتھ جشن آزادی منائیں گے۔ ہر بشر دو شجر، علم و ہنر کی یقین دہانی اور وسائل کا کم استعمال۔ اور بہت کچھ ہمارے وطن کو چاہیے۔ اپنے دوست احباب کے ساتھ تشریف لائیں۔ ملی نغمے،سادہ پکوان، خوشیاں اور رحمتیں۔ جشن آزادی میں سب آپ کی منتظر ہیں.
سائرہ ہیلپنگ ہینڈ سوسائٹی کی ممبر اور بہت سی خوبیوں کی مالک ہے.
جب وہاں اس کے گھر پہنچی تو سماں ہی نرالا تھا. بڑا سا پورچ بیشمارسبز اور سفید جھنڈیوں سے آراستہ تھا اور بڑی خوبصورتی سے سجا ہا تھا…اور مہمانانِ گرامی کی گہما گہمی تھی…خواتین خوش لباس اور چہروں پر مسکراہٹ لائے ہوئے سائرہ سے بغل گیر ہو رہی تھیں. بلکہ تمام گھر کے افراد مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ لان کے دائیں طرف انواح و اقسام کے پکوان پک رہے تھے. پوریاں تلی جا رہی تھیں اور مختلف قسم کے کھانے ٹیبل پر سجے ہوئے تھے. اور لوگوں کو جو مشروب پیش کئے جا رہے تھے وہ سبز رنگ کے تھے اور سائرہ کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
سائرہ ہر سال جشن آزادی کا فنکشن اپنے گھر کرتی ہے۔ اس مرتبہ مجھے کچھ فراغت تھی۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو بڑے تپاک سے ملی….وہ سب سے مل کر اتنی خوش ہو رہی تھی جیسے وطن عزیز ابھی ابھی آزاد ہوا ہے. دیکھا جائے تو جیسا بھی اپنا ملک ہے وہ ہم لوگوں کو عزیز ہے.
قائد اعظم نے اتنی محنت کر کے یہ ملک بنایا ہے…بہت محنت اور لگن سے اور خون کی ندیاں عبور کر کے یہ ملک بنا….تاکہ میری قوم خوشی کے ساتھ آزادانہ طریقے سے زندگی گزار سکے…سو ملک بنا…قائد اعظم کی محنت رنگ لائی۔
بقول پروین شاکر۔
زندگی کی دھوپ میں اس سر پہ اک چادر تو ہے
لاکھ دیواریں شکستہ ہوں، پر اپنا گھر تو ہے۔
الغرض اس آزاد ملک کی قدر کرنی چاہیے…مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے…بڑے ہی نیک لوگوں کی وجہ سے یہ ملک قائم ہے ورنہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا…اس گھر کے افراد اور آنے والے لوگوں کی خوشی دیکھ کر اندازہ لگانے میں دیر نہ ہوئی….ان لوگوں کو اپنے وطن سے محبت ہے۔ وہ محبت میں سرشار دکھائی دے رہی تھی.
سائرہ کو بھی اپنے وطن سے محبت ہے اور اس محبت کی خاطر اس نے اس بکھرے حالات میںSchool Trust معیاری تعلیم و تربیت کیلئے ایک منفرد تعلیمی ادارہ بنایاہے۔ سکول جدید طریقوں سے بنائے گئے ہیں، وسیع و عریض کیمپس۔ جہاں سکول کی کارگردگی پر خصوصی توجہ دیتی ہے…حالانکہ بشمول سیاسی پارٹیاں اورممبران کی پارٹیاں۔ پبلک آپس میں دست گریباں ہو تو وہاں تعلیم کا حصول اور اس کا فروغ دشوار نظر آتا ہے. اس پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ ٹرسٹ سکول بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم چالیس فیصد فری ہے، ان لوگوں کیلئے جو فیس دینے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں…سکولوں کا اجرا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ خصوصاََ جہاں فیس نہ لی جاتی ہو سوائے ان لوگوں کے جو فیس دے سکتے ہیں۔ بڑی خوبی کی بات اور قابل تقلید ہے۔
ہمارے ملک میں غریب لوگ بچوں کی تعلیم پر دھیان نہیں دیتے۔ اس کی وجہ غربت ہے۔
ایک صحیح معاشرہ تشکیل دینے کیلئے ہر فرد کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے. مگر بد قسمتی سے ان لوگوں کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ ان کو روٹی ہی کھلا سکیں……تو تعلیم دلوانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ سفید پوش لوگ کسی کی مدد لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ایسی صورت حال میں ان کے بچے اچھے سکولوں میں کہاں پڑھ سکتے ہیں. حالانکہ اللہ نے بیشمار لوگوں کو خوب نوازا ہے۔ وہ چاہیں تو غریب گھرانے کے بچوں کو مفت تعلیم دلوا سکتے ہیں. مگر کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ ان سے کم فیس لی جائے یا ان کی فیس معاف کر دی جائے…… مگر پوری فیس اور داخلے کے پیسے نہ لائیں تو ان کو سکول میں داخل نہیں کریں گے۔ اس ملک کی ترقی کیلئے تعلیم جیسے زیور کی بے انتہا ضرورت ہے، تعلیم انسان کو انسان بناتی ہے۔ ذہن کو روشن کرتی ہے…اور مہذب کرتی ہے۔ اس کی روشنی سے ہر گھر میں اجالا ہو جاتا ہے۔ اس اجالے کو گھر گھر پہنچانے کیلئے ہر شخص کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرنے کیلئے سائرہ نے چالیس پرسنٹ تعلیم مفت کی ہے…ان لوگوں کیلئے جو غریب اور نادار لوگ ہیں، میرے خیال میں اس سے بڑھ کر اور نیکی کیا ہو سکتی ہے۔ میری دعا ہے کہ سائرہ اس طرح کے نیکی کے کام ہمیشہ کرتی رہے اور اللہ اس کو سدا یہ کام کرنے کی ہمت دے اور اس کا اجر دیتا رہے۔ اب یہی کہنا پڑتا ہے۔
’’یااللہ،ہم آزادی کی نعمت کے لئے تیرا شکر ادا کرتے ہیں اے اللہ ہمیں بحیثیت قوم متحد کر اور راہِ راست پر چلا۔ اور اے اللہ پاکستان کو امن،خوشحالی اور اتحاد نصیب فرما۔ آمین‘‘۔
Follow Us