سَر عبدالقادر کا جنم دن / شاہد حامد

آج میں اس شخصیت کا تذکرہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں جو سَر شیخ عبدالقادر کے نام سے متحدہ ہندوستان میں معروف تھے۔ سَر شیخ عبدالقادر 15 مارچ 1874ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔سر عبدالقادر کے آباؤ اجداد قصور کے مشہور قانون گو خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد شیخ فضل الدین لدھیانہ میں محکمہ مال میں ملازم تھے جہاں سر عبدالقادر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قصور میں حاصل کی۔ 1882ء میں ان کے والد لاہور چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ عبد القادر نے ایف سی کالج میں درجہ اول میں بی اے کیا۔ 1895ء میں انگریزی اخبار پنجاب آبزرور کے نائب مدیر مقرر ہوئے اور تین سال بعد چیف ایڈیٹر ہو گئے۔ 1901ء میں انہوں نے مشہور ادبی رسالہ مخزن جاری کیا مگر 1904ء میں اخبار نویسی چھوڑ کر بیرسٹری کے لئیے ولایت چلے گئے۔ وہاں تین سال قیام کیا۔ اس عرصے میں انہیں یورپ کے مشاہیر سے ملنے اور وہاں کے سماجی مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ خیالات اور مشاہدات میں وسعت پیدا ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبال بھی یورپ میں تھے۔ وہ ایک قابل و باصلاحیت قانون دان تھے اور اردو ادب اور صحافت کے شعبے میں بھی نام پیدا کیا۔ شیخ عبدالقادر اپنے دور کی ان شخصیات میں شامل تھے، جنہیں شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ اور عظیم مصلحِ سرسیّد احمد خان جیسے اکابرین نے سراہا۔علامہ اقبال نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ اگر میں سر شیخ عبدالقادر جیسی نثر لکھ سکتا تو شاعری نہ کرتا۔
سر شیخ عبدالقادر کے ڈاکٹرعلامہ اقبالؒ سے تعلقات حکیماں والے بازار سے ہی قائم تھے۔ اپریل 1901ء میں جب آپ نے مخزن کا پہلا شمارہ شائع کیا تو علامہ اقبال کی نظم ’ہمالہ‘ اْس میں شامل تھی۔ اس کے بعد مخزن میں علامہ اقبالؒ کی نظمیں‘ غزلیں اور مضامین متواتر شائع ہوتے رہے۔ یورپ میں ایک وقت تھا جب اقبال نے شاعری چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو آپ کی ہی وجہ سے آرنلڈ کے مشورے پر اقبال نے اپنا فیصلہ ترک کیا تھا۔شیخ عبدالقادر کی عملی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ ایک بہترین مدیر، محقق، مقالہ و انشائیہ نگار اور مترجم بھی تھے جب کہ انہیں اردو زبان اور جدید ادب کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔ قابل ِ ذکر بات ہے کہ سَر شیخ عبدالقادر ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے علامہ اقبالؒ کے اوّلین مجموعے ”بانگِ درا“ کا دیباچہ تحریر کیا تھا۔ ہندوستان کے تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی راہ نما سَر عبدالقادر شیخ کی ذہانت اور خوبیوں کے معترف تھے۔ انہیں اردو زبان سے بڑا لگاؤ تھا اور اس زمانے میں وہ اردو کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنے میں پیش پیش رہے۔
وہ سَرسیّد احمد خان کی تحریک سے وابستہ تھے۔ 1907ء میں امتحان پاس کرنے کے بعد ہندوستان لوٹے تو پہلے دہلی اور بعد میں لاہور میں وکالت کا سلسلہ شروع کیا۔ 1911ء سے 1920لائل پور (فیصل آباد) میں بحیثیت سرکاری وکیل بھی کام کیا۔
سَر جلال الدین، ان کے لاہور میں استقبال کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ شیخ صاحب علامہ اقبال سے پہلے بیرسٹری پاس کر کے لاہور آ گئے۔ لاہور میں انہیں شاندار انداز میں خوش آمدید کہا گیا، بہت بڑا استقبالیہ جلوس نکالا گیا۔ ایسے مناظر کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ انگریز افسر بھی بہت متاثر نظر آتے تھے۔ اگلے روز گورنمنٹ ہاؤس میں ایک پارٹی تھی، شیخ صاحب کو بھی دعوت نامہ بھجوایا گیا۔ پارٹی میں موجود چیف کورٹ صاحب نے پوچھا کل لاہور میں کون شخص وارد ہوا ہے کہ جس کے استقبال کی گونج مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ میزبان نے کہا ابھی ملوائے دیتا ہوں، ان کی ملاقات شیخ صاحب سے کراتے ہوئے کچھ تعارفی کلمات بھی کہے، جن کی متقاضی شیخ صاحب کی ذات تھی۔ چیف صاحب نے مسکرا کر کہا، شیخ صاحب آپ کا استقبال آپ کے شایانِ شان ہوا۔
1921ء میں شیخ صاحب ہائیکورٹ کے جج بنے اور 1935ء میں پنجاب کے وزیر تعلیم کا منصب سنبھالا۔ 1939ء میں انہیں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بنایا گیا اور 1942ء میں سر عبدالقادر کو بہاولپور میں چیف جج کا منصب دیا گیا۔سَر عبدالقادر شیخ 9 فروری 1950ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
٭٭٭٭٭