چٹھی آئی ہے / یونس باٹھ

چٹھی آئی ہے چٹھی آئی ہے اور یقینا وہ وقت بھی یادہے اور وہ دن بھی یا د ہیں جب واقعی ایک دوسرے کو چٹھیاں بھیجی جاتی تھیں اور اگر کبھی کوئی چٹھی کسی کی آتی تو خوشی کی انتہا نا رہتی اور چٹھیاں بذریعہ ڈاک بھیجی جاتی تھیں اور خاص کر یاد ہے کہ جب بچے ہوتے تھے تو دوستوں عزیز و اقارب کے لئے خصوصی عید کارڈ بھیجتے تھے اور وہ عید کارڈ بذریعہ ڈاک بھیجے جاتے تھے اور اگر تاریخ دیکھی جائے تو ڈاک کے نظام کا باقاعدہ آغاز خلیفہ وقت جناب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوا اور آج کی بات کریں تو آج کے ماڈرن دور میں ڈاک کے ذریعے چٹھی بھیجنے کی بجائے عوام سوشل میڈیا کو چٹھی بھیجنے کا ذریعہ بنا چکے اور ہماری آج کی نسل کو تو فاسٹ سروس ہی پسند ہے اور آج کے دور میں ڈاک کا نظام صرف دفتری ڈاک تک ہی محدود رہ گیا ہے یا پھر ایسے پنڈوں میں جہاں وائی فائی یا اسمارٹ فون کا استعمال نا ہونے کے برابر ہو۔ بات ہو رہی تھی کہ ڈاک کے نظام کی تو ہماری آج کی نوجوان نسل بذریعہ ڈاک خط بھیجنے کوپسند نہیں کرتی اور وہ شائد اس لئے کہ اگر بذریعہ ڈاک چٹھی بھیجے جائے تو جواب ہفتوں میں آتا ہے لیکن بذریعہ انٹرنیٹ سوشل سروس پہ فوری جواب موصول ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈاکخانوں میں ڈاک محدود ہو گئی لیکن وہ پرانا ڈاک والا نظام بہر حال موجود ہے اور آج بھی آپکو اکثر جگہوں پہ شہروں میں بھی ڈاک کی ترسیل کرنے والے جنہیں ڈاکیا کہا جاتا ہے ڈاک تقسیم کرتے کبھی کبھی کہیں نا کہیں نظر آ ہی جاتے ہیں اور اگر کہا جائے کہ ڈاک کے نظام کو تباہ کرنے میں بڑا ہاتھ پرائیوٹ کورئیر کمپنیز کا بھی ہے جو تیز ترین ڈیلیوری سروس فراہم کرنے کے نعرے لگا کے عوام کو دونوں ہاٹھوں سے لوٹ رہی ہیں جنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ پرائیوٹ کارگو کمپنیز کا قبلہ درست کیا جائے اور انکے لئے بھی مخصوص قیمتیں مقرر کی جائیں تاکہ عوام کو لٹنے جانے سے بچایا جا سکے اورحکومت پہ یہ بھی لازم و ملزوم ہے کہ محکمہ ڈاک کی بہتری کے لئے ہر ممکن کوشش کرے تو بہر حال اجازت دوستو چلتے چلتے اللہ نگہبان رب راکھا۔