fbpx
منتخب کالم

76خدارا غریب عوام پر رحم کریں/ سید روح الامین

سالوں سے سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں ختم ہی نہیں ہو رہیں۔ اقتدار کی ہوس میں کوئی ایک بھی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں۔ اِن کی لڑائیوں کا اثر صرف اورصرف غریب عوام پر پڑتا ہے۔ بخدا آج لوگوں کے لئے غربت، مہنگائی، بیروزگاری کی وجہ سے زندہ رہنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ غربت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں کو ذبح کر رہے ہیں۔
 حیرت ہے ہمارے حکمران معلوم نہیں کس مٹی کے بنے ہیں اُن پر معمولی سا بھی اثر نہیں؟ بجلی کے بِل سراج الحق صاحب نے درست کہا تھا کہ یہ ڈیتھ وارنٹ ہیں۔ ملک کو لوٹنے والے یہ خُود ہیں۔ آئی ایم ایف سے یہ قرضے خود لیتے ہیں۔ وہ پیسا خرچ کہاں ہوتا ہے؟ عوام کی حالت تو بَد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اشرافیہ اور غرباءکے بچوں کی معیارِ زندگی کا موازنہ کریں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ 76سال بعد بھی حکمرانوں کے بچے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں پتّی؟ جھوٹے وعدے کر کے ووٹ لیتے ہیں پھر حکومت میں آکر لوٹ مار ایسی کرتے ہیں کہ بس خُدا کی پناہ! اربوں کے قرضے لے کر خُود ہی معاف کر لیتے ہیں۔
 پی ڈی ایم حکومت نے باقاعدہ قانون سازی کی تھی کہ پچاس کروڑ تک کی کرپشن کی اجازت ہے۔ اُسے نیب نہیں پُوچھ سکے گا۔ اداروں کو تو برباد ہی کر دیا گیا ہے۔ اداروں کے وقار کو اس قدر مجروح کر دیا گیا ہے کہ سوچ کر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ پاک فوج ایک مقدّس ادارہ تھا۔ 
میرے والد گرامی اللہ اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، انہوں نے پاک فوج میں ملازمت کی۔ ملک کا بچہ بچہ اپنی فوج سے محبت ہی نہیں عشق کرتا ہے، مگر ان مفاد پرست سیاست دانوں نے پاک فوج کو بھی متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو اِن کی اپنی کارکردگی تو ایسی ہوتی نہیں کہ عوام انہیں ووٹ دے پھر یہ پاک فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آتے ہیں۔ جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں اُسی پاک فوج کے خلاف زہر اُگلتے ہیں۔ بخدا پُوری دنیا میں اِن نام نہاد سیاست دانوں کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
 دوسرا ایک مقدّس ادارہ عدلیہ کا تھا۔ آج عدلیہ بھی مذاق بنی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کے فیصلے چاہتا ہے۔ اگرمرضی کے فیصلے نہیں آتے تو سرعام معزز ججز صاحبان کی توہین کی جاتی ہے۔ اُنہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، اُنہیں للکاا جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر آرٹیکل 6لگانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ خدا کا خوف کریں۔73ءکا جو آئین بنا تھا، اُس کی کسی ایک شِق پر بھی آج تک عمل ہوا ہے؟
1988ءتک تو آپ نے اُردو کو بطور قومی و سرکاری زبان پُورے ملک میں نافذ کرنا تھا ، آپ کو لُوٹ مار سے فرصت ہی نہیں۔ اگر آرٹیکل 6لگا تو صِرف جماعت اسلامی کے لوگ بچیں گے۔ آپ میں سے کِس کِس نے قانون شکنی نہیں کی؟ حضرت عیسیٰ ؑکا گذر ہوا تو دیکھا کہ چند افراد ایک شخص کو مار رہے ہیں، پوچھا کیوں مار رہے ہو؟ بتایا گیا کہ اس نے فلاں جُرم کیا ہے۔ آپ نے فرمایا”اس کو اَب صرف وہ مارے گا کہ جس نے خُود یہ جُرم نہ کیا ہو تو سب کے سَر شرم سے جُھک گئے۔
 تو بات یہ ہے کہ قانون کا زبانی احترام تو سبھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر پاﺅں تلے روندتے ہیں۔ اگر عوام نے کسی پارٹی کو ووٹ دیئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اب اداروں کو للکارنا شروع کر دے۔ قومی سلامتی یا ملکی اداروں کے خلاف باتیں کرے۔ قانون کا احترام ہر ایک شہری پرفرض ہے۔
 خدا کے لئے غریب عوام پررحم کریں۔ گلی محلوں میں جا کر چیک کریں ‘ بجلی کے بل ہی لوگوں کے لئے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ عوام کے لئے سب آپس میں لچک پیدا کریں۔ ایک دوسرے کے نزدیک آئیں، آپس میں صاف دِلوں کے ساتھ مصافحہ کریں۔ جو مُجرم ہے اُسے ضرور سزا دیں، مگر کسی پر بھی ظلم اور بے انصافی نہ کریں۔ 76سال کے بعد ہی ملک کے لیے ایک ہو جائیں۔ آپ کی حرکتوں کی وجہ سے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود آج ہم پُوری دنیا کے مقروض ہیں۔ غریب عوام پر مزید ظلم نہ ڈھائیں ۔ آخرآپ نے بھی اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہونا ہے۔ 
محترم شہباز شریف صاحب ایک منجھے ہوئے اور مفاہمت پسند، تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ اُن کی سرپرستی میں اس ملک کی عوام کے لئے مِل کر کام کریں۔ 




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے