تقسیم ہند سے پہلے محمد ایوب خان اور کری آپا بنوں میں اکٹھے سروس کر چکے تھے۔ کری آپا بریگیڈ کمانڈرتھا اور محمد ایوب خان شاید یونٹ کمانڈر۔ دونوں کی آپس میں بہت اچھی دوستی تھی اور اس دوستی کی بناء پر کری آپا کم از کم تین دفعہ جنرل محمد ایوب خان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے پاکستان آیا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد کری آپا اپنے ٹروپس سے ملنے امرتسر بارڈر پر آیا۔ سامنے اُسے پاکستانی سولجرز نظر آئے تو وہ اُن سے ملنے سرحد کی اس جانب چلا آیا۔ سامنے سے پاکستانی سولجرز نے وارننگ دی کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو گولی سینے سے پار ہو جائے گی۔ اپنے سٹاف کے منع کرنے کے باوجود کری آپا نہ رُکا لہٰذا اُس کے رابطہ آفیسر کو پاکستانی ٹروپس کو اونچی آواز میں بتانا پڑا کہ جنرل کری آپا ملنا چاہتے ہیں جس کا پاکستانی جوانوں نے بڑا مثبت جواب دیا۔ وہ آیا ہمارے جوانوں سے ملا۔ جوانوں کی روایتی ضیافت چائے اور پکوڑوں سے لطف اندوز ہوا۔ فوٹو ہوائے خیر خیریت پوچھ کر واپس چلا گیا۔ جنرل بعد میں فیلڈ مارشل کری آپا کی سوانح عمری کے مطابق واقعہ کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
”Lieutenant Colonel as Ahlawat of the Rajput Regiment recalls an episode of 1965 war which was told to him by Major MS Panwar of the Parachute Regiment. It ran like this: ”Soon after the war General Cariappa visited our troops in the Amritsar – Lahore Sector. The Indian and Pakistani troops were within shouting distance. Panwar was acting as Liasion Officer to the General, when the General unknowingly stepped into no-man’s-land. The Pakistanis shouted that if he advanced one more step then he would be fired at. The LO (Liason Officer) shouted back that the concerned person was General Cariappa. Hearing the name of such a distinguished figure, the Pakistanis insisted that he must ‘honour’ them too and was most welcome to come over. The General went to them and was soon mobbed by the eager Pakistanis. He seemingly forgot to whom he was talking, and started asking; ‘Jawan chitthi ata hai? Khana thik milta hai? Koi taklif hai to batao’; etc. While the LO was trying to whisper the General’s ear that he spoke with the Pakistani troops, he retorted: ‘Oh! they are very much our boys.. let me talk to them’. He continued to have talks of old days; had a mugful of tea and some pakoras – the traditional tea of the Jawans, When someonebrought a camera, he posed with the troops before saying ‘Khuda Hafiz God bless’.” Ref: KM Cariappa. His Life & Times By Brig. CB Khanduri.
واپس آکر کری آپا نے جنرل ایوب خان کو اس واقعہ کے متعلق ایک تفصیلی خط لکھا جس کا ایوب خان نے فون پر کری آپا کا شکر یہ ادا کیا۔ یادر ہے کہ دشمن فوج کے ٹروپس سے ملنا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں۔ تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ نپولین کا بھی ہے۔ جنگ واٹرلو میں شکست کے بعد برطانیہ نے نپولین کو زیر حراست لے کر انلاٹنگ میں چھوٹے سے جزیرے Saint Halena پر بھیج دیا۔ وہاں سے برطانوی فوج کی مشہور یونٹ 53 رجمنٹ گزر رہی تھی کہ ایک دن کے لیے جہاز اُس جزیرے پر زکا۔ نپولین کو پتہ چلا تو وہ ٹروپس سے ملنے گیا۔ ٹروپس نے نپولین کو دیکھا تو سب اُس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ کھل کر گپ لگی۔ نپولین نے بہت سے جوانوں سے خیر خیریت پوچھنے کے بعد فردا فردا پوچھا، ”کتنی سروس ہوئی ہے؟ کتنے زخم لگے ہیں؟‘‘ دوسرے دن یونٹ تو آگے روانہ ہو گئی لیکن روانگی کے وقت برطانوی جوانوں نے اپنے دشمن قیدی نپولین کے لیے تین پر جوش روایتی فوجی نعرے لگائے۔ چند ماہ بعد پورے یورپ میں یہ سب سے اہم خبر تھی۔
معلوم نہیں کہ کری آپا نہرو کی سازش پر عمل کر رہا تھا یا واقعی اپنی کوششوں میں مخلص تھا لیکن میری ذاتی رائے میں متحدہ فوج کی سوچ عملی طور پر ممکن نہ تھی۔ ہاں البتہ اگر اُس وقت تقسیم کے عمل کو منصفانہ انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا تو ہم یقینا ایک دوسرے کے بہتر ہمسائے ثابت ہو سکتے تھے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کری آپا والی سوچ کے پس منظر میں جب صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے 1959 ء میں مشتر کہ دفاع کا منصوبہ آگے بڑھایا تو نہرو نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔
٭…٭…٭
Follow Us