fbpx
منتخب کالم

بجلی کے شعبہ میں اصلاحات/ اویس لغاری


پاکستان میں بجلی کے شعبہ میں درپیش جن  پیچیدہ اور سنگین مسائل سے نمٹا جا رہا ہے ان میں بیڈ گورننس، تاخیرسے کئے گئے فیصلے، اور اقتصادی ترقی میں اتار چڑھاؤ شامل ہیں۔ ان کے نتیجے میں  ایسے مسائل، مشکلات اور نااہلیاں سامنے آئیں جو اندرون ملک آمدنی کو متاثر کر رہی ہیں، جبکہ مقامی اور برآمدی دونوں سطح کے کاروباروں کو غیر مسابقتی بنا رہی ہے۔ اس طرح  کے بے کار عوامل اب بجلی کی قیمتوں اور پاکستان میں بجلی کے شعبہ کی پیچیدہ نوعیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہر سال جون اور اگست کے درمیان بجلی کی طلب میں اضافہ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بہت زیادہ سیاسی شو رو غوغا اور اتار چڑھاؤ کا باعث بنتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے، حکومت نے غیر ملکی ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے ملکی ایندھن کا استعمال کرکے اخراجات کو کم کرنے کی پالیسیاں شروع کی ہیں، جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار سے منسلک اخراجات میں کمی آئی ہے۔ اس مالی سال 2024-2025 کے لیے متوقع ٹیرف ایڈجسٹمنٹ جو جون میں ہوئی تھی،  یہ ایڈجسٹمنٹ اگلے سال میں ٹیرف پر نظر ثانی کرنے میں مدد کرے گی۔ 16.8 ملین محفوظ صارفین (گھریلو) کے لیے نئی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ 2% سے بھی کم اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ غیر محفوظ صارفین کے لیے، اضافہ اوسطاً 9% ہے۔ 
مزید برآں، معیشت کے مضبوط ہونے کے ساتھ ہی بجلی کے نرخوں میں کمی ہو جانے کا امکان ہے، اور بجلی پیدا کرنے کی استعداد کے اخراجات پورے بورڈ میں ٹیرف کو کم کرنے کے لیے ایک بڑی کھپت کی بنیاد پر پھیلے ہوئے ہیں اس طرح جون 2024 کے مقابلے میں جنوری 2025 تک بجلی کے نرخوں میں اوسطاً 3 فیصد کمی متوقع ہے۔
حکومت پاکستان نے صنعتی یونٹس کے ذریعے پیداوار میں اضافے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے صنعتی ٹیرف میں بھی کمی کی ہے۔ معیشت کو فروغ دینے کے لیے یہ تعاون ضروری ہے۔ بجلی کی وزارت عالمی بینک کے ساتھ مل کر تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی آپریشنل استعداد کار میں بہتری اور بجلی کی چوری اور گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لئے ان ڈسکوز کی نجکاری کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس نجکاری سے سرمایہ لانے اوربجلی کے شعبہ کی کارکردگی اور مستعدی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی طرف سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں ناکامیوں پر قابو پانے کے لیے بجلی کے تعمیراتی ڈھانچے  پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ شمال-جنوبی ترسیل کی حدود کو کم کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے قیام کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ اس طرح کی رکاوٹوں کی وجہ سے جنوب میں پیدا ہونے والی سستی بجلی کہیں اور استعمال نہیں کی جا سکتی۔ زرعی نقصانات کو کم کرنے اور کاربن کے اخراج کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ڈی سینٹرلائزڈ ٹیوب ویل سولرائزیشن پروگرام پر بھی عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی ترجیحات کاربن کے اخراج کو کم کرنا اور قیمتوں کے مسابقتی نظام  پر عمل درآمدکرنا ہیں۔ شمسی بجلی بارے حکمت عملی کا مقصد گرڈ کے استحکام کو متاثر کیے بغیر شمسی توانائی کو وسیع پیمانے پر اپنانے کی ترغیب دینا ہے۔ اس طرح  بجلی کے شعبہ کے اہم اجزاء پیداوار میں اضافہ، نااہلیوں کا خاتمہ اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا ہیں۔
پاکستان کی نصف سے زیادہ بجلی کم کاربن والے جوہری، قابل تجدید توانائی اور آبی  جیسے ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ ان ذرائع کے استعمال سے پیداواری لاگت درآمدی ایندھن کے مقابلے میں زیادہ سستی ہوتی  ہے۔ مثال کے طور پر، بجلی کی پیداوار کی ایندھن کی قیمت 10.9 روپے فی کلو واٹ ہے، لیکن ہائیڈل پاور کی وجہ سے، گرمیوں میں یہ 9 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ تک گر جاتی ہے۔ حکومت کا مقصد پائیدار توانائی کی ایسی صنعت کی فراہمی کرنا اور اسے ترقی دیناہے جو اقتصادی توسیع اور استحکام کو فروغ دیتی ہو۔ مارکیٹ پر مبنی ان اصلاحات کے نفاذ اور پاور انڈسٹری میں بنیادی  تعمیراتی ڈھانچے کی بہتری سے نہ صرف بیکار عوامل اور  درپیش رکاوٹیں کم ہوں گی بلکہ یہ پاکستان کی صنعتی ترقی کے لیے ایک محرک کا کام کریں گی۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے