جون کا مہینہ ویسے ہی کچھ سخت گیر سا ہوتا ہے۔ موسم کی شدت اوپر سے بجٹ کی گرمی اس بار تو کچھ اس سے بھی بڑھ کر ہوگیا۔ اس مہینے میں ایک بخار کی بیماری بھی پھیل گئی ،جس کا وائرس پھیلا ہمارے میڈیا سے، جس نے دن رات صبح شام ایک ہی چیز دکھائی، اسی کے بارے میں بتایا ،کرکٹ اور صرف کرکٹ۔ ظاہر ہے کروڑوں کے اشتہارات بھی تو بیچنے تھے، ریٹنگ بھی لینی تھی تو چڑھا دیا کرکٹ کا بخار۔ ہر طرف کرکٹ اور ہر طرف کرکٹرز۔ خبریں ہوں یا اشتہارات ، یہاں پہنچ گئے، وہ پہنا، وہاں کھایا اور پھر ’شاہین دبوچنے کو تیار‘ جیسی دہائیوں سے چلی آنے والی سرخیاں۔ عوام اس بار بھی باتوں میں آگئے کھلاڑیوں کو صبح شام اشتہارات میں مختلف اشیاءبیچتا دیکھ کر وہ بھی کہہ اٹھے ’کمال، کیا ٹیم ہے! ‘ان کا تو ’لیول ہی اور ہے! ‘
یہ تو اللہ بھلا کرے ہماری ٹیم کا جس نے جلد ہی قوم کو شکستوں کی اوپر تلے خوراک دے کر بخار اتار دیا ورنہ تو یہ پورا مہینہ اترنے والا نہیں تھا۔ میڈیا کے ذریعے جو امیدیں لگوائی گئی تھیں وہ تو ٹوٹیں لیکن بخار بھی اتر گیا۔ خیر، بخار میں بھی انجیکشن لگوانے کی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن بخار اتارنے کے لیے اتنی تکلیف تو اٹھانی ہی پڑتی ہے۔ لیکن یقین جانیں اس بخار کے چڑھانے میں ہماری ٹیم بیچاری کا زرا بھر قصور نہیں وہ تو ہمیں کتنا پہلے سے سرخ جھنڈیاں دکھاتے رہے۔ اپنے ملک میں دوسرے ملک کی تیسرے درجے کی ٹیم سے ہار گئے۔ ایک چھوٹی ٹیم سے ان کے ملک میں ہار ے۔ یہ سب سرخ جھنڈیاں ہی تو تھیں کہ بھائی ہم پہ نہ رہو، ہم سے نہ ہوپائے گا۔لیکن ملی جذبے سے سرشار ہم لوگ کہاں ماننے والے تھے، لگالیں توقعات، باندھ لیں امیدیں، اب اگر ایک کلو کی گنجائش والے تھیلے میں پانچ کلو کا سامان ڈالنے کی کوشش کی جائے تو اس میں غلطی تھیلے کی تو نہیں یا پھر مشین میں گنا ڈال کر سوچا جائے کہ جوس سیب کا ملے گا تو بات تو نہ بنی۔ تو غلطی ٹیم کی کہاں سے ہوگئی، وہ بیچارے پھر بھی آپ کے لیے قربانی دیتے ہیں۔ موسم کی پروا کیے بغیر میدان میں اتر جاتے ہیں۔ زیادہ دھوپ ہو تو منہ پرکریم شریم لگا لیتے ہیں لیکن کھیلتے ضرور ہیں۔ کس کے لیے صرف آپ کے لیے۔ کسی کی کمر میں درد ہو یا گھنٹے کا مسئلہ یقین جانیں اف تک نہیں کرتے تاکہ کسی کو معلوم نہ ہوجائے کہ انھیں یہ تکلیف ہے۔ فٹ ہوں نہ ہوں کھیل نہیں چھوڑتے، اوپر سے ہر کھلاڑی چاہتا ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ خدمت کرسکے۔ اسی لیے تو ہر کھلاڑی کپتان بننا چاہتا ہے ورنہ دوسرے ملکوں کی ٹیمیں دیکھ لیں، بڑے بڑے کھلاڑی اپنی گیم میں لگے رہتے ہیں، کپتان بننا ہی نہیں چاہتے۔
پھر ہمارے کھلاڑی، عمر آرام کرنے والی ہوجاتی ہے لیکن یہ آرام نہیں کرتے، ٹیم میں ڈٹے رہتے ہیں۔ کس کے لیے صرف آپ کے لیے نا۔ اس پر انھیں ملتا کیا ہے، وہی جو سب کو ملتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو ایک پاکستانی کی سالوار آمدن ہے وہ ان کو دنوں کے حساب سے دے دیے جاتے ہیں۔ اسی لیے تو انھیں اشتہاروں کا اوور ٹائم لگانا پڑجاتا ہے جس طرح عام پاکستانی کو محنت مزدوری کے لیے بیرون ملک جانا پڑتا ہے ان کو بھی اسی طرح کی محنت مزدوری کے لیے لیگیں شیگیں کھیلنا پڑتی ہیں، دیار غیر جانا پڑتا ہے۔ باقی رہی ہار جیت کی بات بلکہ صحیح کچھ یوں ہوگا کہ جیت کی بات، کیونکہ ہار تو ہم بآسانی جاتے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ ہارنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ایسے ایسے میچ ہار جاتے ہیں کہ جیتنے والے کو بھی یقین نہیں ہوتا ، تو اگر کرکٹ گیم ہی بائی چانس ہے تو اس میں ان کا کیا قصور ؟ جب چانس بنے گا جیت بھی جائیں گے۔ پہلے بھی تو بائی چانس جیتتے ہی رہے ہیں نا۔ باقی ٹیمیں بھی تو بائی چانس ہار نہیں جاتیں تو بھائی جب کبھی ایسا وقت آئے جیسا اب آیا ہے تو وقت دیں، وقت۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔
اور ہاں یہ کیوں نہیں سوچتے کہ پہلے آپ کی دعاو¿ں سے ٹیم جیت جایا کرتی تھی اب کیوں نہیں جیتتی۔ آپ کی دعاو¿ں میں اثر نہیں رہا تو ٹیم کو اس کا قصوروار نہ ٹھہرائیں،ویسے بھی اب تو آپ کو اس کاعادی ہوجانا چاہیے تھا برس ہا برس سے یہ سب ہوتا چلا آرہا ہے کوئی پہلی بار تو نہیں ایسا ہوا۔ ابھی چند مہینوں بعد پھر کوئی بڑا ٹورنامنٹ آجائے گا پھر میڈیا ماحول بنا دے گا اور پھر سب کہنے لگ جائیں گے کمال کیا ٹیم ہے،لیکن آئندہ مایوس نہ ہوں اس کے لیے وہ چھوٹے تھیلے زیادہ سامان والی مثال یاد رکھیے گا اور ہاں ایسی غلطی صرف کرکٹ میں ہی نہیں اور بھی کئی جگہ ہم کرکے مایوسی اپنے گلے ڈال لیتے ہیں۔
Follow Us