بچوں کی نہیں بڑوں کی تربیت ضروری ہے/ زیبا شہزاد

مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے سگنل پہ روکنے کی۔ پتہ بھی ہے کس کابیٹا ہوں۔ یہ وہ تڑی ہے جو اکثر قانون کی خلاف ورزی پہ روکنے والے ٹریفک وارڈن کو سننا پڑتی ہے اور سگنل پہ موجود وارڈن کو یہ لہجہ و الفاظ بتا دیتے ہیں کہ غلطی کس نے کی ہے۔ وہ وارڈن جو چالان کاٹنے کا سوچ رہا ہوتا ہے، چالان پیپر تھمانے کی بجائے معذرت کر کے مزید قانون شکنی کی اجازت دے دیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ سخت لہجہ اس تھانیدار کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو ہوش و حواس سے بیگانہ الٹے سیدھے کام میں ملوث کسی نوجوان کو پکڑ لے تو تھانے میں ” تھرتھلی ” مچ جاتی ہے۔ جرم کرنے والے کو پکڑ کر تھانیدار مجرم بن جاتا ہے۔ اگر تھانیدار علاقے میں نیا ہو یا تھانیداری کے نئے نئے خمار میں ہو کر قانون بتانے کی کوشش کرے تو پھر اسے بتا دیا جاتا ہے کہ اب تھانیدار کا قانون کسی دور دراز گاؤں میں چلے گا یا اپنے گھر میں، کیونکہ یہ بلونگڑے جن کو تھانیدار پکڑنے کی ہمت دکھاتا ہے یہ کسی تگڑے بااثر افراد کے لخت جگر ہوتے ہیں۔ اور کسی ماجھے، ساجھے کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ ان پہ ہاتھ ڈال سکے۔
سکول میں بچے کو ڈانٹ پڑے تو مائیں شور مچاتی استانی کی کلاس لینے پہنچ جاتی ہیں، اور پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ بچے کو دوسرے سکول میں داخل کروانے کی دھمکی ایسی ہے کہ استانی تو استانی سکول پرنسپل کو بھی معافی مانگنا پڑ جاتی ہے۔ اگر کوئی دوست، عزیز بچے کی شکائیت لے کر گھر آئے تو خود بے عزت ہو کر جاتا ہے۔ والدین بچے سے باز پرس کرنے کی بجائے آنے والے پر بگڑتے ہیں کہ ہمارا بچہ ٹھیک ہے آپ الزام لگا رہے ہیں۔
ماں بہن کو دی جانے والی گالی کے مفہوم سے بچہ آشنا نہیں ہوتا، وہ گالی کے توسط سے بیان کی جانے والی خواہش سے بھی انجان ہوتا ہے، لیکن وہ گالی سنتا ہے تو اسی طرح بول دیتا ہے، یہ سمجھے بغیر کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ لوگ گھروں میں ملازم رکھیں تو گھر کے بچوں کو باور کروا دیا جاتا ہے کہ اسے صرف کام کرنے والی مشین سمجھا جائے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ گدھے پہ لادھ کر اینٹیں لانے والے کو بھی اکثر گدھا ہی سمجھا جاتا ہے۔ جھنڈے والی گاڑیوں کے اکثر مالکوں کی اپنی گردنوں میں تو سریا فٹ ہوتا ہی ہے لیکن یہ سریا وہ اپنے ساتھ اپنی اولاد کی گردن اور ان کی سوچ میں بھی فٹ کر دیتے ہیں اور اچھی طرح سمجھا دیتے ہیں کہ کسی سے ڈرنے یا دبنے کی ضرورت نہیں تم سیاہ کرو یا پھرسیاہ ہی سیاہ کرتے جاؤ تمہارے باپ کا رتبہ تمہارا حامی و ناصر ہے اور اسی رتبے کا فائدہ بچے خوب اٹھاتے ہیں۔ پتہ ہوتا ہے وہ کچھ بھی غلط کر لیں ان کے باپ کی ایک فون کال دوسروں کو سیدھا کر دے گی۔ یہ سوچ صرف پختہ نہیں ہوئی بلکہ عملی طور پہ ثابت ہو چکی ہے کہ پہنچ والوں کی فون کال کام کرتی ہے اور بنا تعلق والوں کا ٹیلنٹ بھی بے کار جاتا ہے۔ اکثر خراب کاموں میں تعلق داریاں یوں نبھائی جاتی ہیں جیسے گذرے زمانوں میں سچی دلداریاں نبھائی جاتی تھیں۔
بچے خراب ہوگئے ہیں، بچوں کو کسی کا لحاظ ہی نہیں رہا۔ ان کی آنکھ کی شرم مر گئی ہے۔ نئے دور کے بچے ہیں، بدتمیز تو ہوں گے۔ یہ ہے وہ سوچ جو ہر بندہ دوسرے کے بچے بارے رکھتا ہے۔ ہر دور میں یہی کہاجاتا ہے، زمانہ بُرا ہے، بچے خراب ہو گئے ہیں۔ خدا کانام لیں زمانہ برا ہوتا ہے، نہ بچے خراب۔ یہ بڑے ہیں جن کی وجہ سے دونوں بدنام ہوجاتے ہیں۔ بڑے اپنی خراب سوچ کے ساتھ بچوں کو غلط باتوں کا عادی بناتے ہیں اور الزام زمانے پہ ڈال کے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
معصوم بچوں کی تربیت کی فکر چھوڑ دیں کوشش کریں بڑوں کے دماغی خلل دور ہوں۔ اگر بڑوں کے دماغ ٹھیک ہوگئے تو یقین کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بڑوں کے دماغوں میں فتور ہوں تو بھلا بچے کیسے اچھی سوچ اپنا سکتے ہیں۔ جہاں معمولی کلرک سے کلکٹر تک اور pion سے پی ایم تک سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنی حیثیت اپنے رتبے کا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہوں وہاں اچھی تربیت کی ضرورت بچوں کو نہیں ہوتی۔