fbpx
منتخب کالم

  اخلاص کہاں رخصت ہوگیا؟/ پروفیسر مدثر اسحاق

سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ "اخلاص "سے مرادیہ ہے کہ ہرکام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضاجوئی کیلئے کیاجائے۔ انبیائے کرام توخیرابتداء سے ہی اخلاص کے اعلیٰ ترین مقام پرفائز ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسے لوگ ممکن ہے مجاہدات کے ذریعے "اخلاص” کے کسی خاص مرتبے تک پہنچ جائیں، تاہم بلآخروہ جس مقام پربھی پہنچیں گے، وہ انبیائے کرام کے اخلاص کی ابتداء ہی ہوگی، چونکہ انبیائے کرام اخلاص کی حقیقت سے بہرورہوتے ہیں، اس لیے انہیں "مخلصین” کامرتبہ حاصل ہوتاہے۔ موجودہ دورمیں امت مسلمہ کادامن اخلاص سے خالی نظر آتا ہے، دکھاوا، نمودونمائش اور "سلفی کلچر”خطرناک حدتک رواج پاچکاہے۔ حتیٰ کہ عبادات تک اس سے متاثر ہو چکی ہیں۔ "اخلاص”راہ راست پرچلنے والے انسان کی پہچان ہے۔ مخلص انسان کبھی راہ حق سے نہیں بھٹکتا۔ اس کی روحانی زندگی ہرقسم کی کج روی سے پاک اور ہمیشہ ترقی اوربلندی کی طرف محو  پروازرہتی ہے۔ یہ حضرات جس اخلاص سے اپنی زندگی کا آغازکرتے ہیں، اس کی پاکیزگی کی عمر بھر حفاظت کرتے ہیں، تاہم ایسے لوگوں کی تعدادبہت کم ہوتی ہے۔ 

سرکاردوعالم ؐ کی ذات اقدس پوری تاریخ انسانیت میں واحدہستی ہیں، جس نے اخلاص کے اعلیٰ ترین مقام تک پروازکی، اوراس افق سے بھی پارچلی گئی، جس کے بعدکوئی افق نہیں، کوئی منزل نہیں، یہی وجہ تھی کہ دعوت کے آغازسے لے کر فاتحانہ اندازمیں "مکہ”میں داخلے تک آپ ؐ کی تواضع اوراخلاص میں بال برابربھی فرق نہ آیا۔ سوائے چندایک واقعات کے "مکہ”کی فتح صلح کے ذریعے ہوئی۔ اس موقع پر سرکار دوعالم ؐ  کئی سالوں کے بعد اس مبارک شہرمیں داخل ہوئے، توفاتح سپہ سالاراورراہنماکے اندازمیں داخل ہونے کی بجائے اس قدرتواضع سے داخل ہوئے کہ عاجزی سے آپ ؐ  کا "سرمبارک "کجاوے کی لکڑی پرلگنے کااندیشہ تھا۔ مدینہ منورہ میں بھی آپ ؐ کا طرزعمل نہ بدلا۔ صحابہ کرام ؓ، آپ ؐ کی تشریف آوری پراحتراماًکھڑے ہوجایا کرتے اور انہیں کھڑاہونابھی چاہیے تھا، لیکن جب آپ ؐ کا گزرکسی "جنازے "کے پاس سے ہوتاتوسرکار ؐ اس کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۔ باوجوداس کے کہ آپ ؐ  ہرقسم کی عزت واحترام کے مستحق تھے، سرکار ؐ صحابہ کرام ؓکے اپنے لیے احتراماً کھڑے ہونے کو ناپسندفرماتے اور انہیں تنبیہہ فرماتے کہ میرے احترام میں عجمی لوگوں کی طرح کھڑے نہ ہواکرو۔ یادرکھیں کہ سرکاردوعالمؐ  نے جس نہج پراپنے عظیم مقصدکاآغازکیا، اسی نہج پر اس کی تکمیل کی، آپ ؐ کی پوری زندگی موسیقی کی ہم آہنگ دھنوں کی طرح میانہ روی سے گزری۔ رسول ؐ نے جس کام کا آغاز کیا، اسے پائیہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کی کوئی نظیرنہیں ملتی۔ یوں لگتاہے کہ آپ ؐ نے پرسکون اندازمیں خدائی موسیقی کی دھنوں سے آغازکیا اورجلدہی ان کی آوازبلندہوئی توان سے زمین وآسمان جھوم اٹھے۔ سرکاردوعالم ؐ  نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لئے وقف کردی تھی۔ آپ ؐ  کے "قلب اطہر”سے معرفت الٰہیہ کے چشمے پھوٹ پڑے۔ آپ ؐ نے اپنے اخلاق وعظمت کی روشنی میں صحابہ کرام ؓ کی تربیت فرمائی۔ سرکار ؐ کی ذات اقدس "سراپا اخلاص”تھی، جس کی وجہ سے آپ ؐ کبھی بھی یادالٰہی سے غافل نہ ہوئے۔ سرکار  ؐ نے ارشادفرمایاکہ "اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کروگویاتم اللہ کودیکھ رہے ہو، کیونکہ اگرتم اللہ کونہیں دیکھ رہے تواللہ توتمہیں دیکھ رہاہے "۔ اب ہمارابڑاسنگین مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عبادات تک "اخلاص”سے خالی ہیں، جس کے بھیانک نتائج ہماری معاشرتی زندگی میں تیزی سے برآمد ہو رہے ہیں۔ ہمیں فوری طورپر”اصلاح نفس”کی ضرورت ہے۔ "اخلاص” ہماری عبادات کی روح ہے۔ سوشل ایشوزخودبخودحل ہوناشروع ہوجائیں گے، اس کے علاوہ ہمارے پاس اورکوئی چوائس نہیں ہے۔ 

 




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے