fbpx
منتخب کالم

   روشنی کا مینار…… مرزا ادیب      (1)/ ڈاکٹر فوزیہ تبسم


مرزا ادیب 4اپریل 1914ء کو لاہور کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ان کا نام سید دلاور حسین علی رکھا گیا مگر وہ ادبی دنیا میں مرزا ادیب کے نام سے مشہور ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہور سے حاصل کی اور بے اے آنرز اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے کیا۔ ان کے دادا عربی فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔ بچپن میں انہوں نے ان کے کتابوں کے ذخیرے سے استفادہ کیا اور اپنے ظرف اور مزاج کے مطابق ان کتابوں کو اپنے اندر محفوظ کرلیا اس طرح ان کے دادا سے ہوتے ہوئے علم کے ذخائر ان تک پہنچے اور پھر سید دلاور حسین علی واقعی مرزا ادیب بن کر ادب کے آسمان پر روشن ستارے کی طرح جگمگانے لگے۔خیام، حافظ اور فردوسی کے کلام نے ان میں نئی روح پھونکی اور مرزا ادیب اپنا ادبی سفر تیز سے تیز تر کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے گئے۔

ان کے دل میں جذبات و احساسات کا جو سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا وہ اپنے جوبن پر آ گیا۔ روح کا کرب الفاظ میں ڈھلنے لگا اور شعر تخلیق پاتے گئے یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ میٹرک میں تھے ادبی سفر میں ہر قدم پر ایک نیا تجربہ ہوتا ہے جو تخلیق کار کو نئے نئے مضامین سے روشناس کروانے کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے تحت اس کے آنے والے انداز کا تعین ہوتا ہے اور اس کی سوچ کے سبب اس کا اپنا ایک نیا اور انوکھا انداز اس کے  ہمعصروں کے سامنے آتا ہے۔ مرزا صاحب نے کھلی آنکھوں سے اپنا سفر جاری رکھا اور بلند سے بلند تر مقام کو چھونے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں۔ بلاشبہ یہ وہ دور تھا جب ایک شاعر، ایک ادیب اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ منظر عام پر آیا کرتا تھا پورا کیا۔

مندرجہ بالا سطور سے واضح ہے کہ مرزا ادیب نے اپنے ابتدائی دور میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا اور سکول کے زمانے میں ہی شعر کہنا شروع کر دیئے تھے پہلے عاصی تخلص کیا پھر ادیب، پھر مرزا ادیب بن گئے۔ سکول میں جو پہلی نظم لکھی اس کے دو شعر ملاحظہ فرمایئے:

میں نے دیکھی ہے آج اک بکری

دودھ دیتی ہے گھاس کھاتی ہے

پیار سے میرے پاس آتی ہے

جب پکڑتا ہوں بھاگ جاتی ہے

وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے انہوں نے جہاں ادب کے مختلف اصناف یعنی افسانہ، ناول، ڈرامہ، تنقید، تبصرہ اور کالم میں اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا وہاں بچوں کے لئے دلچسپ کہانیاں،ناول اور ڈرامے لکھے۔مرزا ادیب نے بچوں کے لئے ایسی نظمیں لکھی ہیں جو بہت خوبصورت ہیں۔ خاص طور پر ”میرے طوطے تجھے کیا ہوا ہے“ ایک سہیلی سے شکوہ ان کی نظم ننھی عذرا کی اپنی امی سے شکایت بہت مشہور ہوئی چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اے امی جان! آئی ہوں تیرے حضور آج

اک بات ہے جسے میں کہوں گی ضرور آج

ننھی کا لڈو میں نے چرایا تو کیا ہوا؟

کھانے ہی کے لئے تھا جو کھایا تو کیا ہوا؟

اس بات پر بتایئے بگڑی ہیں آپ کیوں؟

اور کرکے لال آنکھیں جھڑکتی ہیں آپ کیوں؟

یہ سارا بیان بچوں کی فہم کے عین مطابق ہے اور اس میں بچوں کے جذبات و احساسات اور ذہنی سطح کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔مرزا ادیب کی یہ نظمیں قیام پاکسان سے پیشتر لکھی گئیں۔مرزا ادیب کی شخصیت ایک ایسے پھول کی سی تھی جس کی خوشبو بچوں اور بڑوں کو یکساں طور پر مسرور کرتی تھی اور اپنے اثرات کو ان کے دلوں پر نہایت نرمی سے مرتب کرتی تھی ان کا یہ کارِ خیر ان کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔مرزا ادیب نے جب آنکھ کھولی تو ان کے چاروں طرف مردہ روایات کا ایک دبیز غبار چھایا ہوا تھا ان کے اردگرد جہالت و مردہ قدامت پرستی کے اندھیروں کا خوفناک رقص جاری تھا ان کے اپنے کہنے کے مطابق ”میرے گرد اندھیرا تھا، جہالت کا اندھیرا، قدامت پرستی کا اندھیرا، خاندانی بے حسی اور جمود، تعطل کا اندھیرا اور مجھے اندھیرے کی ان بلند دیواروں سے باہر نکلنا تھا میری منزل ایک روشن دنیا تھی افق تا افق، یعنی مرزا ادیب اپنے ماضی سے محبت کرتے تھے وہ نوحہ گر نہیں وہ صورت گر تھے ان کی Auto biograpyداستانِ حیات ہے انہوں نے زندگی کے ایک ایک لمحے کو محسوس کیا ماضی کو جیتے جاگتے انداز میں پیش کیا۔ مرزا ادیب نے حالات و واقعات، اپنی ذہنی کیفیات اور دلی جذبات کو بڑی خوبصورتی سے لفظوں کے حوالے کیا ان کی یہ آب بیتی کھوئے ہوؤں کی جستجو بھی ہے اور ان کی اپنی ذات کا ایسا حوالہ ہے جو ان کے پورے دور کی عکاسی کرتا ہے۔ مرزا ادیب نے اردو کہانی کی تین اہم تحریکوں یعنی رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک اور جدید تحریک کے حوالے سے کہانیاں لکھیں ہیں۔(جاری ہے)




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے