نومبر کے سرد مہینے میں باغوں کا شہر کہلوانے والا لاہور اور اس کے دیگر اضلاع ایک کثیف دھوئیں اور دھند کی دبیز چادر میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ منظر خوبصورتی کا نہیں بلکہ ایک جان لیوا مسئلے کا عکاس ہے جسے ہم "سموگ” کہتے ہیں۔ سموگ کی یہ خوفناک کیفیت نہ صرف ماحولیاتی تباہی کا ثبوت ہے بلکہ شہریوں کی صحت کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ لاہور کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہمیں اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے ہماری حکومت محض وعدے اور بیانات تک محدود ہے۔سموگ کی اصل وجوہات میں گاڑیوں کا دھواں، صنعتی فضلات، کوڑے کرکٹ کو جلانے اور کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کا جلانا شامل ہے۔ بھارت کے پنجاب میں بھی فصلوں کی باقیات کو جلانے کی روایت موجود ہے جو سرحد پار آلودگی کی شدت کو بڑھاتی ہے۔ اس سب کا نتیجہ آج لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس "شدید آلودہ” زمرے میں ہے، جس کا اوسطاً اسکور 348 ہے۔ یہ اس سطح کو ظاہر کرتا ہے جو صحت کے لیے انتہائی مضر ہے خاص طور پر سانس کی بیماریوں یا دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے۔ سموگ، صرف فضائی آلودگی نہیں بلکہ یہ ایک خاموش قاتل ہے جو شہریوں کو سانس کی بیماریوں آنکھوں کی جلن اور دل کے امراض کا شکار بنا رہا ہے۔ بچوں اور بوڑھوں کو خاص طور پر اس سے زیادہ خطرہ ہے۔مگر حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ایسے مشکل وقت میں ہمارے اہم وزراء اور پنجاب کی اعلیٰ قیادت بیرون ملک چلی گئی تھی۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ جب انتظامیہ ہی میدان سے غائب ہو تو مسائل کا حل کیسے ہوگا؟یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ذاتی علاج کے لیے یورپ کا رخ کرتے ہیں چاہے وہ گلہ خراب جیسی چھوٹی بیماری ہی کیوں نہ ہو۔ مگر عوام کے پاس کہاں جانے کا راستہ ہے؟ عمران خان پر چاہے کتنی ہی تنقید ہو مگر اس نے کبھی اپنی بیماری یا مقدمات سے بچنے کے لیے بیرون ملک کا سہارا نہیں لیا۔ایک کنسٹرکشن بزنس کے پیشہ ور ہونے کے ناطے میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر کلائنٹس اپنے گھروں کی تعمیر کے بعد گرین بیلٹس پر لگے درختوں کو کٹوانے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ ان کے گھر کی خوبصورتی نمایاں ہو سکے۔ کئی بار کلائنٹ خود یا سوسائٹی ایڈمنسٹریشن سے درخواست کر کے ان درختوں کو نکلوا دیتے ہیں مگر یہ رویہ ہماری اجتماعی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایک خوبصورت گھر کا مقصد صرف اس کی عمارت کی نمایاں جھلک نہیں بلکہ آس پاس کی سرسبز فضا بھی ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے درختوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور ان کی حفاظت کو اپنی ترجیح بنانا ہو گا۔ عالمی سطح پر لندن جیسے شہر نے سموگ کے مسئلے کو سخت قوانین اور مستقل اقدامات کے ذریعے قابو میں کیا ہے مگر ہمارے یہاں درختوں کا کٹاؤ، ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام اور صنعتی فضلات کا ناقص انتظام اس مسئلے کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ ہمیں پنجاب میں کلین ایئر ایکٹ جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ صنعتی علاقوں کو شہری علاقوں سے دور منتقل کرنے، گاڑیوں کے دھوئیں پر قابو پانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات سے ہم اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں اور بھارت کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بھی ضروری ہے تاکہ سرحدی علاقوں میں آلودگی کا مسئلہ مشترکہ طور پر حل کیا جا سکے۔ ضروری ہے کہ ہم سب اس مسئلے کو عارضی نہ سمجھیں بلکہ ایک مستقل چیلنج کے طور پر دیکھیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری اور دیرپا اقدامات اٹھائے اور ہم شہری بھی "ہر بشر دو شجر” کے مصداق فضاء کو صاف رکھنے کے لیے اپنے گھروں اور گلی محلوں میں درخت لگائیں، ماسک استعمال کریں اور آگاہی پھیلائیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی قیادت عطا فرمائے جو ملک و قوم کی خدمت کو اولین ترجیح دے اور اپنے عوامی فرائض کو دل سے نبھائے۔ آمین
Follow Us