ایک مرتبہ پھر ہماری فضا سموگ کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے حد نگاہ میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے۔فضا میں چہار سو پھیلی سموگ کی وجہ سے نہ صرف نظام زندگی متاثر ہو چکا ہے،بلکہ یہ مختلف بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سموگ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ فوگ (fog)کیا ہے؟تو مختصرا فوگ جسے عرف عام میں دھند کا نام دیا جاتا ہے بظاہر تو بادلوں کا ایک غلاف ہی ہے جو سرد یوں کے موسم میں نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک میں دھند عموما دسمبر کے آخر میں اور جنوری کے مہینے میں پائی جاتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وقت سے پہلے بھی آن پہنچتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی مخصوص نہیں ہے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ۔ خیر سائنسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہوا میں ہر وقت آبی بخارات موجود ہوتے ہیں لیکن جب ہوا میں نمی کا تناسب ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو یہ بخارات ہوا سے الگ ہو کر فضاء میں موجود گرد و غبار اور دوسرے ذرات کے اوپر جم جاتے ہیں اور پانی کے قطروں کی شکل میں زمین کے اوپر فضا میں معلق ہو کر دھند کا سماں پیدا کرتے ہیں۔اب جہاں تک سموگ کی بات ہے تو یہ اصطلاح سب سے پہلے سموک اور فوگ کو ملا کر بنائی گئی یعنی دھوئیں،گردوغبار اور دوسری مضر گیسوں سے مل کر بننے والی دھند ہے جسے زہریلی یا آلودہ دھند بھی کہا جا سکتا ہے۔سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو سلفر ڈ ائی آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز، کاربن مانوآکسائیڈ، تابکار مادوں، گاڑیوں کے دھوئیں سے خارج ہونے والے نائٹروجن کے آکسائیڈز، ہائیڈرو کاربنز، میٹلک کمپاؤنڈز اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے فضا میں شامل ہونے والے فضائی پلوٹینٹس کی وجہ سے بنتی ہے۔یہ فضائی پلوٹینٹس جب دھند کے ساتھ جا ملتے ہیں تو یہ کالے اور زرد رنگ کی سموگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بحرحال سموگ پہلی دفعہ ہمارے ہاں دیکھنے کو نہیں ملی یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اس سے قبل لندن، لاس اینجلس، بیجنگ، تہران، دہلی،میکسیکو اور دنیا کے کئی بڑے بڑے شہر اس کی لپیٹ میں وقتا فوقتا رہ چکے ہیں،جہاں تک موجودہ سموگ کے ختم ہونے کے امکانات کا تعلق ہے تو بارشوں کا سلسلہ شروع ہو تے ہی حالات فی الفور معمول پر آ جائیں گے۔ اب اگر سموگ کے مہلک اثرات پر نظر ڈالی جائے تو یہ انسانی جسم کے لئے بھی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ سموگ نظر کی خرابی کے علاوہ گلے کی خراش، سینے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے،ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو نہائیت احتیاط کی ضرورت ہے، اس کے لئے طبی ماہرین کی ہدایات پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہو گا جن کے مطابق اس طرح کے موسم میں کھلے ماحول میں گھومنے پھرنے سے پرہیز کیا جائے، منہ اور ناک پر ماسک وغیرہ پہن کر رکھیں،پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔اب ایک اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مستقبل میں سموگ اور اس طرح کی دوسری فضائی آلودگی سے کیسے نمٹا جائے تو چونکہ یہ مسئلہ دنیا بھر کے ممالک کو درپیش ہے اسی لئے اس کے سد باب کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔مثال کے طور پر سموگ سے نمٹنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں بہت بڑے بڑے ویکیوم ایئر کلینر نصب کر دیئے گئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔کم ازکم ایسے اقدامات ضروری ہوں گے کہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔اس سلسلہ میں فوسل فیولز یعنی کوئلہ،گیس اور تیل کی بجائے انرجی کے متبادل ذرائع جن میں سولر انرجی،اٹامک انرجی،ہوا اور پانی کی انرجی وغیرہ شامل ہیں پر انحصار بڑھایا جائے، کیونکہ فوسل فیولز کے جلنے سے فضا میں دھوئیں کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار بھی شامل ہو جاتی ہے جو فضا کو آلودہ کر دیتی ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ علاوہ ازیں صنعتی پلانٹس،گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں اور دوسری زہریلی گیسوں کو ایک خاص حد تک کم کیا جائے تاکہ ہم اور ہماری نسلیں ان کے مہک اثرات سے محفوط رہ سکیں۔ سر دست جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو یہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے جس کے خلاف مناسب حکمت عملی اپنائی جائے۔
Follow Us