”تدوین حدیث“ سرکار ﷺ کی وفات کے 100 سال بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے حکم سے شروع نہیں ہوئی، جیسا کہ ”مستشرقین“ کا دعویٰ ہے، بلکہ احادیث نبویہ کی تدوین”عہد نبوی“ میں ہوئی،انہیں یاد کیا گیا اور پھر تحریر و تقریر دونوں ذرائع سے انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچایا گیا۔ صحابی رسول ؐ حضرت جابر بن عبداللہؓنے احادیث نبویہ کا ایک بڑا تحریری ”ذخیرہ“ اپنے پیچھے چھوڑا۔ اس کے علاوہ ہم اس دور سے تعلق رکھنے والے حدیث کے ایک بہت ہی اہم ماخذ ”ہمام بن منبہ“کے ” صحیفہ صحیحہ“ سے بھی آگاہ ہیں۔
ہمام بن منبہ ہمیشہ حضرت ابو ہریرہؓ کی صحبت میں رہے۔ یادداشت کی عبقری صلاحیت کے مالک یہ صحابی جو حدیث بھی بیان کرتے۔ ہمام بن منبہ اسے لکھ لیتے حتیٰ کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے استاد کے سامنے ایک حدیث ذکر کی، تو حضرت ابو ہریرہؓ نے ان سے فرمایا کہ انہیں یہ حدیث یاد نہیں۔ اس پر ہمام بن منبہ اٹھے اور ان کے پاس وہ صحیفہ لے آئے، جس میں وہ احادیث لکھا کرتے تھے اور اس میں سے وہ حدیث پڑھی، جسے سن کر ان کے استاد قائل ہو گئے۔پروفیسر محمد حمید اللہ ؒ نے اس صحیفہ کو شائع کیا ہے اور اس صحیفے کے ”کاربنی تجزئیے“ (Carbonic Analysis) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تیرہ صدیاں پیشتر لکھا گیا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ احادیث مسند امام احمد میں بھی موجود ہیں۔ مزید برآں ان کا ایک بڑا حصہ ”بخاری و مسلم“ جیسی کتب صحاح کے اہم اجزاء پر مشتمل ہے۔ یہ جس طرح عہد رسالت مآبؐ میں ”تدوین حدیث“ کی دلیل ہے، اسی طرح ان کے صحابہ کرامؓ، تابعین اور پھر تبع تابعین کے واسطے سے بالکل صحیح اور مکمل صورت میں کتب حدیث میں منتقل ہونے پر بھی شاہد ہے۔
ان تاریخی حقائق اور احادیث کے پیش نظر دورِ حاضر کے عظیم عراقی محدث ”احمد محمد شاکر“ لکھتے ہیں کہ کتابت حدیث سے ممانعت والی احادیث یا تو بعد میں ”منسوخ“ہو گئی تھیں یا ممانعت سے مقصود احادیث کو قرآن کے ساتھ لکھنے سے روکنا تھا۔
پہلی صدی میں متذکرہ طریقے کے مطابق تدوین حدیث کے بعد ”عمر ثانی“ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دورخلافت میں احادیث نبویہ کی سرکاری سطح پر تدوین ہوئی۔اس وقت مختلف مقامات پر حدیث کے مختلف صحیفے موجود تھے اور ان کی احادیث کو زبانی روایت کیا جاتا تھا۔ جس طرح پہلی صدی ہجری میں حضرت عمر، ابن عباس، ابو موسیٰ اشعری، ابوسعید خدری اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم نے ”تدوین حدیث“ کی مخالفت کرتے ہوئے زبانی یاد کرنے کو ترجیح دی، اسی طرح تابعین کے دور میں بھی علم حدیث میں ید طولی رکھنے والے اور حفظ و یاد داشت غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ”امام شعبی‘اور”امام نخعی“ ایسے حضرات نے تدوین حدیث کی مخالفت کی، لیکن اس مخالفت کے باوجود حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں اولین صحیفوں میں محفوظ اور زبانی طور پر متداول احادیث نبویہ کی سرکاری سطح پر تدوین عمل میں آئی،کیونکہ جس طرح جنگ یمامہ میں حفاظِ قرآن کی بڑی تعداد میں شہادتوں نے حضرت عمر بن خطابؓ کے دل میں جمع قرآن کی ضرورت کا داعیہ پیدا کیا، اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تمسک بالسنتہ اس کی تدوین کا باعث بنا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بہت سے لوگوں کی رائے میں سرکارؐ کی بشارت:”دین کا آغاز اجنبی پن سے ہوا، اور یہ پھر اجنبی بن جائیگا، لہذا ان اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہو، جو میرے بعد میری سنت میں در آنے والے فساد کی اصلاح کرینگے۔“کا مصداق بننے والے پہلے مجدد تھے۔
تدوین حدیث کے سلسلے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی سرگرمیاں مدینہ منورہ میں صرف امام زہری کی کاوشوں تک ہی محدود نہ تھیں،بلکہ مکہ مکرمہ میں عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے، عراق میں سعید بن ابی عروبہ نے، شام میں امر زاعی نے، مدینہ میں محمد بن عبدالرحمان نے، کوفہ میں زائدہ بن قدامہ اور سفیان ثوری نے، بصرہ میں حماد بن مسلمہ نے اور خراسان میں عبداللہ بن مبارک نے اس سلسلے میں حصہ لیا اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے اس موضوع پر قیمتی سرمایہ چھوڑا۔
تدوین کے اس دور کے بعد تصنیف یعنی احادیث کو موضوعات کے لحاظ سے ترتیب دینے کا مرحلہ شروع ہوا۔ یہ اسلا م میں حدیث کی تاریخ کا سنہری دور شمار ہوتا ہے۔ اس دور میں ہمیں ابو داؤدطبالسی، مسدد، حمیدی اور مسند کے مصنف احمد بن حنبل ایسے معروف نام ملتے ہیں۔ دوسری طرف ہمیں اسی سنہری دور میں عبدالرزاق بن ہمام ”المصنف“ ابن ابی ذئب اور امام مالک ”الموطا“ اور یحییٰ بن سعید قطان اور یحییٰ بن سعید انصاری اپنی قابل قدر کتابیں تصنیف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔