وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈ پور نے کہا ہے کہ ”ترمیم عدلیہ پر حملہ ہے،اب پورے ملک کو بند کریں گے“یا خود بند ہو جائیں گے کیونکہ آخر کسی نہ کسی نے تو بند ہونا ہی ہے اگر ہم بند ہو گئے تو ایک ہی بات ہے جبکہ ہم ویسے بھی بند ہوتے اور کھلتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے نیز ہمیں یہ دونوں کام خوب اچھی طرح سے آتے بھی ہیں حتیٰ کہ ہم کہیں بند ہو کر غائب بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں خیبر ہاؤس میں بند ہو کر گم ہوگئے تھے اور ڈھونڈنے سے بھی کسی کو نہیں ملے تھے اور بالآخر اپنی مرضی ہی سے ظاہر ہوئے تھے حالانکہ ہمارے پاس کوئی سُلیمانی ٹوپی نہیں ہے جسے پہن کر ہم دوسروں کی نظروں سے غائب ہو جائیں بلکہ یہ سارا کام ہنر مندی کا ہے جو کسی کسی کو ہی آتی ہے اور ہم نے کبھی اِس پر غرور بھی نہیں کیا کیونکہ ہم طبعاََ عاجز و مسکین واقع ہوئے ہیں اور اسی عاجزی او ر مسکینی کے زور پر ہی بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں اور ساری دنیا انگشت بدنداں رہ جاتی ہے کہ یہ ماشاء اللہ بندے ہیں یہ چھلاوئے ہیں۔آپ اگلے روز پشاور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وکیل راہنما اور پی ٹی آئی سینیٹر حامد خا ں نے کہا ہے کہ ”ہو سکتا ہے جسٹس آفریدی کچھ عرصے کے لیے یہ نامزدگی قبول کرنے سے صاف انکار کر دیں کیونکہ زیادہ سوچنے سمجھنے والے افراد کا دماغ کسی وقت آرام کاطلبگاربھی ہو سکتا ہے او ر وہ کسی نازک لمحے میں اِس نامزدگی کو اپنے لئے نقصان رساں سمجھیں او ر پُوری سنجیدگی کے ساتھ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں اور بعد میں بے شک پچھتا تے رہیں لیکن اِن جیسے جُرأت مند افراد اپنی کہی ہوئی بات کا مان رکھتے ہیں اور ہر حالت میں اِس پر قائم رہتے ہیں چاہے انہیں اِس کا نقصان بھی پہنچ چکا ہو جبکہ ایسے دلیر او ر جری انسانوں سے دنیا کی تاریخ بھر ی پڑی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عدلیہ حکومت کے تابع نہیں ہونی چاہیے۔شاہد عباسی
سابق وزیرِ اعلیٰ او رعوام پاکستان پارٹی کے آرگنائرزر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عدلیہ حکومت کے تابع نہیں ہونی چاہیے“کیونکہ حکومت کے تابع تو پہلے ہی کچھ نہیں ہے اور سارا کچھ اوپر والوں ہی کے تابع چلا آرہا ہے اور اُن کے علاوہ حکومت کا بھی کام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے کانوں تک خوش بھی ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ روزِ اوّل سے ہی ایسا چل رہا ہے اور کبھی کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آئی اِس لیے اب عدلیہ کو حکومت کے اختیارات یا بالا دستی کا ذائقہ چکھنے کا موقع بھی دستیاب ہُوا ہے بلکہ حکومت کو یہ اختیار اور بالا دستی ہضم بھی نہیں ہونے والی اگرچہ دیگر کئی معاملات میں اُس کا معدہ ماشاء اللہ لکڑ ہضم پتھر ہضم واقع ہُوا ہے لیکن یہ اختیار اور بالا دستی لکڑ اور پتھر سے بھی زیادہ سخت واقع ہوئی ہے اِس لئے اسے بس چند دنوں ہی کی بات سمجھیں کیونکہ اُس کے بعد سارا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا اور بات اکنّی والی جگہ پر آکر رُک جائے گی۔آپ اگلے روز مری میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قسمت کی خرابی
ایک پٹھان جنگل میں سے گزر رہا تھاتو اُس نے دیکھا کہ ایک شخص الف ننگا ایک درخت کے ساتھ بندھا ہُوا ہے۔ قدموں کی چاپ سُن کر اُس شخص نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو پٹھان کو دیکھ کر بولا،
”خان صاحب، مجھ پر رحم کریں،ڈاکوؤں نے میرے پیسے اور گھڑی بھی چھین لی اورمجھے مارا پیٹا بھی،اور میرے کپڑے بھی لے گئے، مجھے درخت کے ساتھ باندھ بھی دیا ہے“۔خان صاحب خو ش خوش اُس کی طرف بڑھے اور بولے، ”خوچہ آج تمہارا قسمت ہی خراب ہے“
اور اب آخر میں ضمیر طالب کی یہ پنجابی غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حساب کسے ہور دا شُمار کسے ہو ر دا اے
میرے سر رکھیا ایہہ بھار کسے ہو ر دا اے
لوکاں نوں کسے دا بھلیکھا پے گیا اے
جیھڑا مینوں دیندے نے پیار کسے ہو ر دا اے
ہو ش دی دوا نے وی کی اثر کرنا ایں
پیتی کوئی ہو رسی خمار کسے ہو ر دا اے
سمجھ نہیں آؤندی کدھے وچ کون اے
دُھوڑ اُڈی ہور دی غبار کسے ہو ر دا اے
کدی کدی لگد ا اے مینوں وی ایہہ چار د ا اے
دل میرا اندروں یار کسے ہو ر دا اے
پھیلیاں نے باہواں میرے اگے ہو ردیاں
چار چوفیرے حصار کسے ہو ر دا اے
کُونج نالوں ود ھ کے ضمیر میرا دُکھ اے
جتھے میں آ رلیاں ایہہ ڈار کسے ہو ر دا اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا مطلع
میرے دل میں محبت بہت ہے
اور محبت میں طاقت بہت ہے