یہ کہنا درست نہیں کہ لوگ کتاب نہیں پڑھتے ہیں یا کتابوں کی ضرورت نہیں رہی یہ اسی طر ح ہے جس طرح ابھی تک یہ بھی کہا جاتا ہے پرنٹ میڈیا کی اہمیت اور افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کتابیں ابھی پڑھی جاتی ہیں، اس کا جواز یہ ہے کہ بڑی تعداد میں پبلشرز لاکھوں کی تعداد میں کتابیں مسلسل چھاپ رہے ہیں اور یہ عمل ابھی تک رکا نہیں،حالانکہ پیپر بہت مہنگا ہو گیا ہے پرنٹنگ اور دیگر کتاب کی اشاعت کے لوازمات بھی پہنچ سے دور ہو گٰئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کالم کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے میں اس بات پر متفق نہیں ہوں کالم اپنے اندر بے شمار وسعتیں رکھتا ہے کالم لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے ایسے ہی کالم نگار ڈاکٹر شجاع اختر اعوان ہیں ان کے کالموں کے موضوعات جاندار اور با مقصد ہوتے ہیں الفاظ کا چناؤ اور خیالات کی انفرادیت ان کی تحریروں کا خاصا ہے معاشرہ اور ریاستی اداروں کے لیے ان کے کالم راہنمائی کرتے نظر آتے ہیں ان کا قلم قاری کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے ان کے ذہن میں کئی سوچیں گھومتی رہتی ہیں ان کی مثبت سوچیں عوام و قوم کے لیے کالموں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ان کا تعلق ضلع اٹک کے مردم خیز خطہ کے بیدار ذھین حساس دل قبیلہ سے ہے وہ تین عشروں سے صحافت سے منسلک ہیں ان کا شمار بجا طور پر ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جو بڑی خوبصورتی سے مختلف معاملات پر قلم اٹھاتے ہوئے قلم کی حرمت کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں وہ اپنی مٹی روایات اور اپنی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں انہوں نے اپنے کالموں میں نہ صرف معاشرتی مسائل کو اُجاگر کیا ہے،بلکہ ان مسائل سے پیدا ہونے والے بگاڑ کے حل کے لیے اقدامات کو بھی خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں ڈاکٹر شجاع اختر اعوان ایک ایسے لکھاری ہیں جن کو شہرت سے کوئی غرض نہیں وہ معاشرے میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہیں قومی اخبارات میں چھپنے والے ان کے کالموں کا مجموعہ ”سبھی عنوان میرے“ ان کی اسی مثبت سوچ کی عکاسی کرتا ہے ادب، تعلیم صحت،سماج، عدل و انصاف محکموں کی کارکردگی و زبوں حالی پر انہوں نے لکھا ہے اور خوب جم کر لکھا پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارتوں اور دفاع وطن کے لئے ان کی خدمات کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ہے بلاشبہ وہ ایک کامیاب کالم نگار بن کر اُبھرے ہیں ان کے کالم مختلف قومی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شجاع اختر اعوان لا تعداد خوبیوں کے مالک ہیں اندر کی بات کو وہ چھپانے کے عادی نہیں ہیں ان کے کالم پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مشاہدات کس حد تک ہیں معاشرہ کی دکھتی رگوں پر ان کی تحریروں میں بے تحاشا مواد پڑھنے کو ملتا ہے ان کی صحافتی خدمات کا سفر بھی طویل ہے اور کامیابی سے وہ اس سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں جب مجھے ان کے کالم پڑھنے کا موقع ملا تو احساس ہوا کہ وہ کس قدر حساسیت کے قائل ہیں اور ان کے کالم ہمارے معاشرہ کے لیے مشعل راہ ہیں ان کی تحریریں نوجوان نسل کو بھی درست سمت کی طرف لے جاتی ہیں ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے کالموں کا مجموعہ”سبھی عنوان میرے“ کے نام سے کتابی شکل میں ہمارے سامنے ہے دعا ہے کہ ان کا قلم اسی طرح سے ہماری رہنمائی کرتا رہے اور ان کی خوبصورت اور با مقصد کتابیں ہمیں پڑھنے کو ملتی رہیں یہ کتاب خوب صورت شکل میں سامنے آئی ہے جن کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ میں کالم ہیں جو ابھی بھی مستقبل میں بھی قاری کے لیے تازہ ہی رہیں گے کیونکہ ان کے موضوعات میں مسائل نہ ختم ہونے والے ہیں دوسرے حصہ میں شخصیات ہیں جنہوں نے معاشرہ میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور تیسرے حصہ میں مختلف لکھاریوں کی کتابوں پر تبصرے شامل کر شجاع اختر اعوان نے انفرادیت پیدا کر دی ہے اور اسی حصہ میں صحت کے راز کو پانے کے لئے صحت پر مبنی کالم ہیں جس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مصنف ایک اچھے معالج بھی ہیں ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کی اس کتاب میں نامور لکھاریوں کالم نگاروں اور ادیبوں سید عارف نوناری،مرزا روحیل بیگ،آئینہ مثال، شاہ محمد اعوان ایڈوکیٹ اور یوکے میں مقیم عبدالوحید خان دوردادوی کی آراء بھی شامل ہیں جس سے ان کے کالموں پر مشتمل کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندزاہ کرنا مشکل نہیں کتابوں سے پیار اور محبت کرنے والے بے شمار افراد موجود ہیں اور کتابیں پڑھ کر ہی انسان انسانیت کی منازل طے کر سکتا ہے لیکن افسوس کہ معاشرہ میں لکھاریوں کی وہ عزت نہیں رہی جو آج سے چند سال قبل تھی اس بات پر ہمیں اور حکومت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Follow Us