fbpx
منتخب کالم

  چار مرد ایک کہانی/ زیبا شہزاد


آہ کیا پٹاخہ لڑکی ہے…… چس آگئی دیکھ کے…… تونے اس کی کمر پر فوکس کیا ہوتا تو پتہ چلتا کیسی لچکیلی ہے۔ یار میں تو اسے اپنا بنا کے دم لوں گا۔ آنکھیں بند کیئے شوکے نے گلی کے تھڑے پہ بیٹھے مانے سے کہا۔ یہ پٹاخہ تیرے ہاتھ نہیں آنے والا۔ وکی پان والے کے ساتھ پکی سیٹنگ ہے اس کی۔وکی وہ پان پہ چونا لگانے والا؟ اس کو بھی چونا لگا جائے گا، کبھی سیریئس ہوا کسی کے ساتھ۔ اس سے پہلے کہ وہ چونا لگائے میں اسے حاصل کر لوں گا، ایمان سے دل آگیا اس پٹاخے پہ۔ یہ پٹاخہ تو اب مجھ ہی پہ پھوٹے گا۔ شوکے نے منہ سے سگریٹ کا دھواں نکالتے ہوئے کہا۔ اس کا ایک ہاتھ مسلسل خارش کرنے میں مصروف تھا۔ جبکہ دوسرے میں سگریٹ تھا۔  کیا کروگے تم، مانے نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔ وہی جو اب سے پہلے کرتا آیا ہوں۔ شوکے نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ یعنی دونوں کے بیچ پہلے پل بنے گا اور جب وہ اس پل پہ چڑھیں گے تو پل کا ایک حصہ توڑ دے گا۔ مانے نے پان کی پیک تھوکتے ہوئے کہا۔ہاں اور پھر یہ پٹاخہ ہوگی میرے رحم و کرم پہ۔ اور تو تو بہت ہی رحمدل ہے اپنا کاندھا پیش کر دیتا ہر لڑکی کو۔ دونوں ہاتھوں پہ ہاتھ مار کے قہقہے لگانے لگے۔ آفس سے نکلتے نکلتے آج پھر دیر ہوگئی ہے۔ کام ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ لیپ ٹاپ بیگ کندھے پہ ڈالتے ہوئے مائرہ نے خود کلامی کی۔ وہ جتنی جلدی کرتی اتنی ہی اسے دیر ہوجاتی۔ اس کے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ حیدر معین صاحب عین اس وقت کام بڑھاتے جب وہ کام ختم کر کے اٹھنے والی ہوتی۔ غصہ تو بہت آتا، لیکن کیا کرتی۔ آخر کام ہی کی اسے تنخواہ ملتی تھی۔ حیدر معین انتہائی پڑھے لکھے بہت دھیمے مزاج کے سلجھے ہوئے انسان تھے۔ آج کا کام کل پہ نہیں ڈالتے تھے۔ خود بھی دیر تک کام کرتے اور دوسروں کو بھی عذاب ڈالے رکھتے، لیکن بوقت ضرورت کام بھی آتے۔ اکثر زیادہ دیر ہونے پر گھر بھی ڈراپ کر دیتے۔بڑی پارسا بنتی ہے کتیا۔ آئے گی ایک دن خود ہی چل کر دام میں۔ تیری منزل میں ہی ہوں مائرہ میڈم، بس چند دن اور۔ شیشے کے پار کاندھے پہ بیگ ڈالتی مائرہ کو دیکھتے ہوئے حیدر معین نے سوچا۔

آج کل ریشماں کا بڑا چرچا ہے۔ ہمیں بھی تو متعارف کرواؤ اس سے۔ مشہور سیاستدان آفاق سومرو نے مخالف جماعت کے مرتضیٰ مینگل سے کہا۔ جناب رکھ لیتے ہیں آپ کے لیئے ایک شام، مرتضیٰ مینگل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ نا سرکار یہ پارٹی میری طرف سے ہو گی، اپنے فارم ہاؤس پہ بلالیتے ہیں اسے کسی دن۔ آپ ہمارا سوچیں ہم آپ کے لئے بھی کچھ خاص اہتمام کرتے ہیں۔ پاس بیٹھے وہاب شیخ نے کھلے دل سے میزبانی کی آفر کی، جسے دونوں نے ہنستے ہوئے قبول کر لیا۔

معروف نجی چینل کے ٹاک شو میں ایک دوسرے کو غصہ دکھانے کے بعد شو کے اختتام پر تین مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے نہائیت خوشگوار موڈ میں آپس میں بات چیت کی۔ 

آم کس بھاؤ ہیں؟ دوسو روپے، بہت رسیلے ہیں کردوں پانچ کلو۔ نہیں ڈیڑھ سو روپے لگاؤ، خاتون نے پیسے کم کرنے کو کہا۔ نہیں جی وارہ نہیں کھاتا۔ منڈی سے ایک سو اسی پڑے ہیں۔ سارا دن دھوپ میں کھڑے ہیں، ہم نے کچھ نہیں کمانا کیا؟ اچھا دو کلو دے دو لیکن خراب نہ ڈالنا۔ حق حلال کی روٹی کھاتا ہوں بی بی۔ ٹھیلے والے نے آم تولے اور شاپر اس طرح پکڑایا کہ اس کی انگلیاں نسوانی خریدار کی انگلیوں کا لمس سمیٹ لیں۔

٭٭٭٭٭




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے